کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 479
عقائد کے مسائل پر کھلی بحث کرتے ہیں ، اس میں اہلِ کلام کے فرقوں اور مذاہب کارد کرتے اور اہل السنہ والجماعہ کا دفاع کرتے ہیں ۔ دارالمعارف مصر نے ان کی کتاب اچھی تخریج کے ساتھ شائع کی ہے۔ اس میں احادیث کی تخریج کا کام استاد احمد محمد شاکر نے سرانجام دیا لیکن یہ طباعت مکمل نہ ہو سکی حالانکہ یہ بہت فائدہ مند کام تھا اور اس کی تحقیق پر بھی خوب توجہ دی گئی تھی۔
۳۔ ابنِ عطیہ کی تفسیر ’’المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز‘‘:
ابنِ عطیہ کا تعلق اندلس کے مشہور قاضیوں سے تھا، علم وفضل والے گھرانے میں پرورش پائی، بہت بڑے فقیہ، حدیث، تفسیر، لغت اور ادب کے علوم کے ماہر، بیدار مغز، سمجھ دار اور مالکی مذہب کے معروف عالم تھے۔ تفسیر میں ان کی کتاب کا نام ’’المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز‘‘ ہے۔
ابنِ عطیہ نے تفسیر بالمنقول کی روایات کی تلخیص کر کے ان میں ایسے امور کا اضافہ کیا ہے جو ان کی علمی روح نے بڑی باریک بینی سے حاصل کیے تھے۔ یہ کتاب دس بڑی جلدوں پر مشتمل تھی اور آج تک مخطوطہ کی صورت میں ہے۔ الشیخ محمد ذہبی نے (التفسیر والمفسرون جلد ۱ ص: ۳۴۰ پر) ذکر کیا ہے کہ دارلکتب مصر میں صرف چار اجزاء مل سکے لیکن اس کے باوجود اس کتاب کو بہت شہرت ملی اور اکثر مفسرین اس سے نقل کرتے ہیں ۔ یہ کتاب ادبی شواہد اور نحوی فن کا عظیم شاہکار ہے۔
ابوحیان اپنی تفسیر کے مقدمہ میں ابنِ عطیہ اور زمخشری کی تفسیر کے مابین موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ابنِ عطیہ کی کتاب ملخص، جامع اور منقولات سے بھرپور ہے جب کہ زمخشری کی کتاب ملخص تو ہے لیکن اس کی باتیں مشکل ہیں ۔‘‘
شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ بھی ان دونوں کا ایسا ہی موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’’ابنِ عطیہ کی تفسیر زمخشری کی تفسیر سے بہتر اور نقل وبحث کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے، بدعات سے دور ہے، چند ایک بدعات ہیں بلکہ ابن عطیہ کی تفسیر زمخشری کی تفسیر سے بہت راجح تفسیر ہے۔
ابنِ تیمیہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ابنِ عطیہ کی تفسیر اور اس کی مثالیں سنت وجماعت کے مطابق ہونے کے ساتھ ساتھ زمخشری کی تفسیر کی نسبت بدعات سے محفوظ ہیں ۔ اگر وہ تفاسیر میں موجود