کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 478
ہیں : محمد بن جریر کی تفسیر، تفاسیر میں ایک بہت بڑی تصنیف ہے، اس میں اقوال کی توجیہ، بعض کی بعض پر ترجیح، اعراب اور استنباط جیسی خوبیاں موجود ہیں ۔ اسی وجہ سے یہ اپنے سے پہلے والی تفاسیر پر فوقیت رکھتی ہے۔
امام نووی کہتے ہیں : امت کا اجماع ہے کہ تفسیر طبری جیسی اور کوئی تصنیف نہیں ہے۔ (الاتقان: ۱۹۰/۲)
امام طبری کی تفسیر وہ پہلی کتاب ہے جو تفسیر کے موضوع میں ہم تک پہنچی۔ اس سے پہلے تفسیر میں کی جانے والی کوششیں ہماری دسترس میں نہیں آئیں ، سابقہ کتب سے جو کچھ بھی ہمیں ملا وہ اسی کتاب کی بدولت ملا۔
ابنِ جریر کا تفسیری طریقہ یہ ہے کہ جب وہ کسی آیت کی تفسیر کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں :
((اَلقَولُ فِی تأویْلِ قولِ اللّٰہِ تعالیٰ کذا وکذا۔))
پھر وہ اپنی تفسیر میں اپنی سند صحابہ وتابعین تک لے جا کر ان سے ماثور تفسیر کے ساتھ استشہاد کرتے ہیں اور آیت کے بارے جو کچھ مروی ہو اسے بیان کرتے ہیں ۔ وہ صرف روایت پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ اقوال کی توجیہ اور ان میں ترجیح بھی دیتے ہیں اسی طرح اگر ضرورت ہو تو اعراب کی توجیہ بھی کر دیتے ہیں ، نیز بعض احکام بھی اخذ کرتے ہیں ۔
بسااوقات سند پر ناقدانہ اور بصیرت افروز موقف بھی اپناتے ہیں اور سند کے اجمال پر جرح کر کے ایسی روایت کو رد کرتے ہیں جس کی صحت پر توثیق نہ ہو۔
ابنِ جریر نے قراء ات کو بیان کرنے اور ان کی توجیہ پر بھی توجہ دی ہے۔ ان کے بارے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اس موضوع پر ایک مخصوص تالیف بھی کی تھی، اسرائیلی روایات سے ماخوذ واقعات بیان کرنے کے بعد ان کا تعاقب بھی کرتے ہیں ۔
امام ابنِ جریر منقول روایات کے ساتھ ساتھ لغوی استعمالات پر بھی اعتماد کرتے ہیں ، اسی طرح قدیم اشعار سے استشہاد، نحوی مذاہب کا اہتمام، معروف عربی لغت سے حکم ثابت کرنا اور ایک مجتہد کی طرح فقہی احکام کو پرکھنا بھی ان کی خوبی تھی۔ چناں چہ علماء کے اقوال اور مذاہب کو بیان کر کے اپنی پسندیدہ رائے بیان کرنے کے بعد اسے ترجیح دے کر بات کو ختم کردیتے ہیں ۔