کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 477
کذاب کہا ہے اور کسی نے بھی اسے ثقہ نہیں کہا۔ تجسیم اور تشبیہ کے لیے بہت مشہور تھا، امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں : ’’مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں مقاتل بن سلیمان سے کچھ روایت کروں ۔‘‘
۹۔ محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس کا طریق: یہ سب سے کمزور طریق ہے، کلبی تفسیر میں مشہور ہے لیکن اس کے بارے کہا گیا ہے کہ اس کی احادیث کو ترک کر دینے پر اہلِ علم کا اتفاق ہے۔ یہ ثقہ نہیں ہے، اس کی احادیث نہ لکھی جائیں بلکہ ایک جماعت نے اس پر حدیث گھڑے کابھی الزام لگایا ہے۔ اسی لیے سیوطی ’’الاتقان‘‘ میں کہتے ہیں : اگر کلبی کے طریق کے ساتھ محمد بن مروان السدی الصغیر کی روایت ملا لی جائے تو یہ جھوٹ کا سلسلہ بن جاتا ہے۔ ابن عباس کی طرف منسوب تفسیر سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ اس کتاب میں ابنِ عباس سے مروی تفسیر کا بہت بڑے حصے کا دارومدار محمد بن مروان السدی الصغیر پر ہے اگرچہ سارا نہیں ۔ وہ محمد بن سائب کلبی سے بواسطہ ابو صالح، ابن عباس سے روایت کرتا ہے۔ اور السدی الصغیر کی کلبی سے لی گئی روایت کی حقیقت کو تو ہم جان ہی چکے ہیں ۔ (الاتقان: ۱۸۹/۲)
۲۔ امام طبری کی تفسیر ’’جامع البیان فی تفسیر القرآن‘‘:
ابنِ طبری کا شمار ان بڑے بڑے ائمہ میں ہوتا ہے جنہوں نے بہت سے علوم میں مہارت حاصل کی اور ایک بہت بڑا اسلامی ورثہ چھوڑ کر گئے، جسے کئی ادوار تک کئی نسلوں نے نقل کیا، انہیں اپنی دو کتابوں کی بدولت بہت شہرت نصیب ہوئی ایک تاریخ میں ’’تاریخ الامم والملوک‘‘ اور دوسری تفسیر میں ’’جامع البیان فی تفسیر القرآن ‘‘ یہ اہم ترین علمی مراجع ہیں بلکہ تفسیر میں لکھی گئی ان کی کتاب تفسیر بالماثور کے اعتبار سے مفسرین کے نزدیک اولین مرجع ہے۔
ابنِ جریر کی تفسیر تیس بڑی جلدوں پر مشتمل ہے اور ماضی قریب تک یہ مفقود تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کا ظہور چاہا جب اس کا ایک قلمی نسخہ امیرِ حائل، امیر حمود بن عبدالرشید کی ریاست سے ملا، جو کہ نجد کے امراء سے تھا اور زمانہ قریب میں یہ طبع ہو کر ہمارے ہاتھوں میں آئی جو کہ تفسیر بالماثور پر مشتمل ایک علمی خزانہ ہے۔
یہ بہت قیمتی تفسیر ہے، تفسیر کے طالب علم کو اس سے بے نیاز نہیں ہونا چاہیے۔ سیوطی کہتے