کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 476
عباس رضی اللہ عنہ کی تعلیقات کے لیے اسی پر اعتماد کیا ہے۔ ۲۔ دوسرا طریق قیس بن مسلم عن عطاء بن السائب عن سعید بن جبیر عن ابنِ عباس ہے۔ یہ طریق شیخین کی شرط پر صحیح ہے۔ ۳۔ تیسرا طریق صاحب السیر ابن اسحاق کا ہے جس میں وہ آل زید بن ثابت کے مولیٰ محمد بن ابی محمد سے بواسطہ عکرمہ یا سعید بن جبیر، سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں ۔ یہ طریق بھی بہت عمدہ ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ ۴۔ اسماعیل بن عبدالرحمن السدی الکبیر کا طریق، جو کبھی ابومالک سے اور کبھی ابوصالح کے ذریعے ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے۔ اسماعیل السدی کے بارے اختلاف ہے، یہ شیعہ تابعی تھا۔ سیوطی کہتے ہیں : سدی سے ثوری اور شعبہ جیسے ائمہ نے روایت کی ہے لیکن اس کی جمع کردہ تفسیر کو اسباط بن نصر نے روایت کیا ہے۔ جس کی ثقاہت پر اہلِ علم متفق نہیں ہیں ، لیکن پھر بھی سب سے بہتر تفسیر ’’تفسیر السدی‘‘ ہے۔ ۵۔ عبدالملک بن جریج عن ابنِ عباس کا طریق۔ یہ طریق بحث کرنے کے لیے بہت ہی باریک بینی کا محتاج ہے، کیوں کہ ابنِ جریج نے ہر آیت کے بارے مروی صحیح وغیر صحیح ہر چیز کو بیان کر دیا ہے۔ ۶۔ ضحاک بن مزاحم الہلالی عن ابن عباس کا طریق۔ یہ غیر مقبول طریق ہے؛ کیوں کہ ضحاک کے ثقہ ہونے کے بارے اختلاف ہے نیز ابنِ عباس تک یہ طریق منقطع بھی ہے، اس لیے کہ ضحاک کی ابنِ عباس سے ملاقات نہیں ہوئی۔ اگر اس میں بشر بن عمارۃ عن ابی روق عن الضحاک کی سند بھی ملائی جائے تو بھی یہ بشر کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہوگی۔ ۷۔ عطیۃ العوفی عن ابن عباس کا طریق یہ بھی غیر مقبول ہے؛ کیوں کہ عطیہ ضعیف ہے، امام ترمذی کبھی کبھی ان کی روایت کو حسن کہہ دیتے ہیں۔ ۸۔ مقاتل بن سلیمان الازدی الخراسانی کا طریق، مقاتل ضعیف ہے جو کہ مجاہد اور ضحاک سے روایت کرتا ہے، حالانکہ اس نے ان دونوں سے سماع نہیں کیا، بہت سے اہلِ علم نے اسے