کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 475
نے اہلِ کتاب سے تورات وانجیل کی وہ روایات لی ہیں جو قرآن سے متفق تھیں لیکن ان روایات کا دائرہ محدود ہے۔
استاد گولڈ زہیر نے اپنی کتاب ’’المذاہب الاسلامیۃ فی تفسیر القرآن‘‘ میں ان پر اہلِ کتاب سے بہت زیادہ روایات لینے کا الزام لگایا ہے۔ استاد احمد امین نے کتاب ’’فجر الاسلام‘‘ میں اس الزام کو بیان کیا ہے جب کہ استاد محمد حسین ذہبی نے اپنی کتاب ’’التفسیر والمفسرون ‘‘میں اس پر رد کیا ہے۔ (دیکھیے ج ۱، ص ۷۲،۷۳)
سیدنا ابنِ عباس بھی دوسرے صحابہ کی طرح اسلام میں داخل ہونے والے یہودی علماء سے کسی ایسی چیز کے بارے نہیں پوچھتے تھے جس کا تعلق عقیدہ یا دین کے اصول وفروع سے ہوتا۔ وہ صرف صحیح بات ہی قبول کرتے تھے جو گزشتہ اقوام کے قصائص کے حوالے سے ہوتی اور اس میں شک کی گنجائش نہ ہوتی۔
سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ قرآن کریم کے معانی کو سمجھنے کے لیے عربی اشعار کی طرف رجوع کرتے تھے، اس لیے کہ وہ عربی زبان سے خوب واقف اور اشعار کے دیوان کو خوب جانتے تھے۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے بہت زیادہ روایات منقول ہیں جن میں کچھ صحیح ہیں اور کچھ ضعیف، علماء نے ان روایات کی خوب چھان بین کی اور ان کی صحت کے بارے وضاحت کی ہے۔ ان روایات کے مشہور طرق درج ذیل ہیں :
۱۔ معاویہ بن صالح عن علی ابن ابی طلحۃ عن ابن عباس۔ یہ سب سے عمدہ طریق ہے، اس بارے امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں :
’’مصر میں علی بن ابی طلحہ کا روایت کردہ تفسیری صحیفہ ہے، اگر کوئی شخص صرف اسی صحیفے کی خاطر مصر کا سفر کرے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔‘‘
(الاتقان: ۱۸۸/۲)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’یہ نسخہ لیث کے کاتب ابوصالح کے پاس تھا، جسے اس نے معاویہ بن صالح سے بواسطہ علی بن ابی طلحہ، سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا تھا۔ امام بخاری کے نزدیک بھی یہ ابوصالح سے ہی مروی اور انہوں نے اپنی صحیح بخاری میں ابنِ