کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 473
انوکھی تفسیر: اکثر لوگوں کو غریب الفاظ کی تفسیر کرنے میں بڑی دلچسپی ہوتی ہے، خواہ ان کی بات غلط ہی کیوں نہ ہو اور انہیں پریشانی کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے، چناں چہ اس کام کے لیے وہ اپنی جانوں کو طاقت سے بڑھ کر تکلیف دیتے ہیں ۔ وہ اپنی سوچوں کو ایسی باتوں میں مشغول رکھتے ہیں جن کا علم محض توقیفی ہوتا ہے۔ ان کی اس کوشش کا نتیجہ سوائے نا سمجھی اور سرکشی کے کچھ نہیں نکلتا، یہی وجہ ہے کہ آیات قرآنی کے معانی میں بہت سی عجیب وغریب چیزیں داخل ہوگئیں ، جن میں سے چند ایک ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔ ۱۔ الٓمٓ کے بارے کسی کہنے والے نے کہا ہے: الف سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا، لام سے مراد لَامَہ یعنی جھگڑنے والوں نے آپ کو برا بھلا کہا اور آپ کا انکار کیا، اور میم سے مراد میم المنکرون یعنی منکریں موم یعنی برسام کی بیماری میں مبتلا ہوئے۔ اس بیماری میں مبتلا شخص بہکی بہکی اور فضول باتیں کرتا ہے۔ ۲۔ حٰمٓ عٓسٓقٓ کے بارے کسی نے کہا ہے حاء سے مراد ہے: حَرْبُ عَلِیٍ وَمُعَاوِیَۃ (علی ومعاویہ کی جنگ)۔ میم سے مروانیہ، یعنی بنو امیہ کے شخص مروان کی طرف منسوب ہے۔ عین سے مراد خلافت عباسیہ، سین سے ولدیت سفیانیہ اور قٓ سے مراد قدوۃُ مھدی یعنی مہدی کا طریقہ ہے۔ ۳۔ ابن فورک نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿وَ لٰکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ﴾ (البقرہ: ۲۶۰) کی تفسیر میں کہا ہے: ابراہیم علیہ السلام کا ایک دوست تھا جسے انہوں نے قلب سے موصوف کیا ہے یعنی ان کا یہ دوست اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر کے پرسکون ہو جائے۔ ۴۔ اسی طرح ابومعاذ نحوی اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا﴾ (یٰس: ۸۰) کی تفسیر میں کہتا ہے: اس سے مراد یہ ہے ابراہیم علیہ السلام سے آگ یعنی نور نکالا جو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور فاذا انتم منہ توقدون کا مطلب ہے۔ تم ان سے دین حاصل کرتے ہو۔