کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 472
میرے خیال میں وہ اس دن مجھے اسی لیے لے گئے تھے کہ انہیں دکھائیں ، عمر نے فرمایا: تم لوگ اللہ تعالیٰ کے فرمان:
﴿اِِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ.﴾ (نصر: ۱)
کے بارے کیا کہتے ہو؟ کسی نے کہا: ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ جب ہماری مدد کی جائے یا فتح ملے تو ہم اللہ کا شکریہ ادا کریں اور اس سے استغفار کریں ، بعض خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔ تو (عمر رضی اللہ عنہ ) مجھ سے کہنے لگے: ابنِ عباس رضی اللہ عنہ ! تم بھی یہی کہتے ہو؟ تو میں نے کہا: نہیں ، کہنے لگے: تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا بیان ہے جو اللہ نے آپ کو بتا دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اِِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ.﴾ (نصر: ۱)
اور یہ (فتحِ مکہ) آپ کی موت کی علامت تھی، چناں چہ آپ اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی تعریف کریں ، بے شک وہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں بھی اس بارے وہی کچھ جانتا ہوں جو تم کہہ رہے ہو۔ (اخرجہ البخاری)
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’لوگوں کی تفسیر کا دائرۂ کار تین اصول ہیں :
۱۔ لفظی تفسیر: یہ وہ تفسیر ہے جس کی طرف متأخرین مائل ہیں ۔
۲۔ معنوی تفسیر: اسلاف نے اسی کو ذکر کیا ہے۔
۳۔ اشاری تفسیر: اس کی طرف بہت سے صوفیا مائل ہیں ۔ مندرجہ ذیل چار شرائط کی بناء پر یہ تفسیر درست تسلیم کی جائے گی:
۱۔ یہ تفسیر آیت کے معنی کے منافی نہ ہو۔
۲۔ فی نفسہ آیت کا معنی صحیح ہو۔
۳۔ الفاظ میں ایسی کوئی علامت پائی جاتی ہو۔
۴۔ اس تفسیر اور آیت کے معنی کے مابین ربط والتزام پایا جاتا ہو۔
اگر یہ چاروں چیزیں جمع ہوں تو استنباط صحیح ہوگا۔