کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 471
اس بلندی کو وہ مکان کی بلندی بیان کرتا ہے نہ کہ مرتبہ کی۔
اسی طرح سورۃ النساء کی پہلی آیت:
﴿یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ﴾ (النساء: ۱)
میں ’’اتَّقُوْا رَبَّکُمُ‘‘ کی تفسیر کرتا ہے۔ تم اپنی ظاہری شکل صورت کو اپنے رب کی حفاظت کا سامان بناؤ اور باطنی چیز، جو کہ تمہارا رب ہے، کو اپنی حفاظت کا سامان بناؤ۔ کیوں کہ یہاں پر مذمت وتعریف کا معاملہ ہے چناں چہ مذمت سے اپنی حفاظت کرو اور اسے حمد کے لیے اپنی حفاظت کا سامان بناؤ، اس طرح دنیا کے ادیب قرار پاؤ گے۔
یہ اور اس طرح کی دیگر تفاسیر قرآنی نصوص کو ان کے ظاہر سے دور کر دیتی ہیں اور تفسیر کرنے والا باطل تاویلات اور الحاد و زیغ کے سمندر کی منجھداروں میں کھو کر رہ جاتا ہے۔
اشاری تفسیر:
ایسے صوفیا میں سے بعض صوفی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جس روحانی ریاضت کو صوفیا اپناتے ہیں وہ انہیں ایسے درجے تک پہنچا دیتی ہے جہاں ان کے لیے قرآنی عبارات کے ایسے قدسی اشارات ملتے ہیں جن سے ہر چیز ان پر منکشف ہو جاتی ہے اور غیب کے بادلوں سے ان کے لیے سبحانی معارف کی بارش ہوتی ہے۔ اس چیز کو وہ ’’تفسیر اشاری‘‘ کا نام دیتے ہیں ۔
ان کے مطابق آیت کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن، ظاہر وہ ہوتا ہے جس کی طرف ذہن فوراً مائل ہو جاتا ہے جب کہ باطن وہ ہے جو اس سے ماورا خفیہ اشارات ہوتے ہیں ۔ اس طرح سے جہالت ان کا مقصد بن جاتی ہے لیکن اگر استنباط اچھا ہو، عربی کے ظاہر کے تقاضوں کے مطابق ہو اور اس کے صحیح ہونے پر کوئی شاہد بھی ہو تو اسے قبول کیا جائے گا۔
اس سلسلہ میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں :
عمر رضی اللہ عنہ مجھے بدر میں شریک ہونے والے بزرگوں کے ساتھ (اپنے ایوان میں ) لے جایا کرتے تھے، تو کسی آدمی نے اس بات کی ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا: آپ اسے ہمارے ساتھ کیوں لے آتے ہیں ، جب کہ ہمارے بھی ایسے ہی بیٹے ہیں ؟ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہیں اس بارے کیا پتا، پھر ایک دن عمر نے انہیں (عبداللہ کو) بلایا اور انہی صحابہ کے ساتھ اندر لے گئے،