کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 470
بھی واضح کرے اور ان کی صداقت کو بھی ظاہر کرے۔ زیادہ تر اسرائیلیات چار لوگوں سے مروی ہیں : عبداللہ بن سلام، کعب الاحبار، وھب بن منبہ اور عبدالملک بن عبدالعزیز جریج۔ اہلِ علم ان کی ثقاہت پر حکم لگانے کے بارے مختلف آراء رکھتے ہیں کہ یہ مجروح ہیں یا ثقہ، اور زیادہ تر اختلاف کعب الاحبار کے بارے ہے، جب کہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ان سب میں زیادہ علم اور مرتبے والے تھے۔ امام بخاری اور دیگر محدثین نے ان پر اعتماد کیا ہے اور ان پر وہ اتہام نہیں لگائے گئے جو کعب الاحبار اور وھب بن منبہ کی طرف منسوب ہیں ۔ صوفیاء کی تفسیر اگر تو تصوف سے عبادت کا وہ مشروع طریق کار لیا جائے جس سے دل کو جلا ملے اور عبادت کی بناء پر دنیاوی زیب وزینت اور آسائشوں سے بے رغبتی ہو جائے تو ایسے تصوف میں کوئی حرج نہیں ہے، گو ایسا کرنا بھی کوئی پسندیدہ عمل نہیں ہے۔ لیکن تصوف ایک فلسفہ اور خاص نظریہ بن چکا ہے جس کا تقویٰ، پرہیزگاری اور سادگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس کا فلسفہ ایسے افکارونظریات پر مشتمل ہے جو اسلام اور اس کے عقیدہ کے منافی ہیں ۔ یہاں ہماری مراد یہی تصوف ہے جس سے قرآن کریم کی تفسیر متاثر ہوئی ہے۔ ابنِ عربی کو تصوف کے فلسلفہ ونظریات کا سرخیل سمجھا جاتا ہے، یہ قرآنی آیات کی ایسی تفسیر کرتا ہے جو اس کے صوفیانہ نظریات سے مطابقت رکھتی ہو۔ ایسی تفسیر اس کے نام سے بھی مشہور ہے یا ان کتابوں میں ہے جو اس کی طرف منسوب ہیں جیسا کہ ’’فصوص الحکم‘‘ ہے۔ یہ شخص وحدۃ الوجود کا نظریہ رکھنے والوں میں سے تھا۔ مثلاً اس نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿ وَّ رَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا.﴾ (مریم: ۵۷) کی تفسیر اس طرح کی ہے: سب سے بلند ترین مقام وہ ہے جہاں عالم املاک کی چکی گھومتی ہے اور یہی سورج کا فلک ہے، اسی میں ادریس علیہ السلام کا روحانی مقام ہے۔ پھر کہتا ہے: بلند مقام تو ہم امتِ محمدیہ کے لیے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ وَاللّٰہُ مَعَکُمْ﴾ (محمد: ۳۵)