کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 47
جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر احادیث میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حدیث نبوی کا مضمون تو بذریعہ وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھایا گیا ہو یعنی ’’توقیفی‘‘ ہو لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اجتہاد کے ساتھ مسئلہ کا استنباط کیا ہو یعنی (یہ حدیث) ’’توفیقی‘‘ ہو، لہٰذا اگر ہم احادیث کی کوئی قطعی تعریف کریں تو ہر حدیث کو تو حدیث نبوی کہہ سکتے ہیں ، اگر ہمارے پاس کوئی ایسا قرینہ موجود ہو جس سے ’’توقیفی‘‘ کو علیحدہ کر سکیں تو پھر اسے حدیث قدسی ہی کہیں گے۔
دوسرا شبہ:… اگر حدیث قدسی کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہیں تو پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’قال اللّٰه یا یقول اللّٰه‘‘ کہنے پر اس حدیث کو اللہ کی طرف منسوب کیوں کرتے ہیں ؟
جواب :… عربی زبان میں یہی طریقہ رائج ہے کہ کلام کی نسبت مضمون کے لحاظ سے ہوتی ہے نہ کہ الفاظ کے لحاظ سے، مثلاً آپ کوئی شعر نقل کرتے ہیں تو کہتے ہیں ’’شاعر نے یہ کہا‘‘ اسی طرح جب کسی سے سنی ہوئی بات آگے بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں : ’’فلاں شخص نے یوں کہا‘‘ وغیرہ۔
نیز قرآن کریم نے موسیٰ علیہ السلام ، فرعون اور دیگر لوگوں کی باتوں کو ان کے[1] نہیں بلکہ اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے، اسلوب بھی ان کا نہیں بلکہ قرآن کا اپنا ہے، لیکن اس کے باوجود کلام کی نسبت ان کی طرف کی ہے، فرمان الٰہی ہے: [2]
﴿وَاِِذْ نَادٰی رَبُّکَ مُوْسٰی اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ. قَوْمَ فِرْعَوْنَ اَلَا یَتَّقُوْنَ. قَالَ رَبِّ اِِنِّی اَخَافُ اَنْ یُّکَذِّبُوْنِیْ. وَیَضِیقُ صَدْرِیْ وَلَا یَنْطَلِقُ لِسَانِیْ فَاَرْسِلْ اِِلٰی ہَارُوْنَ. وَلَہُمْ عَلَیَّ ذَنْبٌ فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِیْ. قَالَ کَلَّا فَاذْہَبَا بِاٰیٰتِنَا اِِنَّا مَعَکُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ. فَاْتِیَا فِرْعَوْنَ فَقُوْلَا اِِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ. اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْ
[1] کیوں کہ ان کی زبان عبرانی تھی جب کہ قرآن نے ان کی باتیں عربی زبان میں بیان کی ہیں ، لیکن نسبت انہی کی طرف کی ہے۔
[2] بعض اہل علم کے مطابق یہ چیز بنیادی دلیل ہے کہ حدیث قدسی کے الفاظ وحی ہیں ۔ واللہ اعلم (ع۔م)