کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 469
چناں چہ صحابہ بعض ایسی چیزیں قبول کر لیا کرتے تھے جن کا عقیدہ یا احکام سے تعلق نہیں ہوتا تھا، پھر اسے آگے بیان کر دیتے اس لیے کہ وہ ان باتوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ’’میری طرف سے ایک آیت بھی ہو تو بیان کرو، بنی اسرائیل سے روایت کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں سمجھے۔‘‘ کی وجہ سے مباح سمجھتے تھے۔ یعنی ’’بنی اسرئیل سے بیان کرو اور ان کی تکذیب نہ کرو۔‘‘ کو اس بات پر محمول کیا جائے گاجب وہ ایسی باتیں بیان کریں جن کے سچے ہونے کا احتمال ہے یا جھوٹے ہونے کا تو اس طرح دونوں احادیث میں تعارض نہیں رہے گا۔ اسلام میں داخل ہونے والے اہلِ کتاب جو روایات بیان کرتے ان پر اسرائیلیات کا اطلاق کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہودی اخبار کو نصرانی اخبار پر اکثریت حاصل تھی کیوں کہ اسلام کے ظہور کے بعد یہودیوں کا مسلمانوں سے میل جول نصرانیوں کی نسبت زیادہ تھا۔ اور پھر ہجرت بھی مدینہ کی طرف ہوئی۔ (جہاں یہودی بہت زیادہ تھے) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے تفسیر قرآن کے سلسلہ میں اہلِ کتاب کی بہت کم جزئی اخبار کو قبول کیا ہے۔ پھر جب تابعین کا دور آیا اور اہلِ کتاب کے بہت زیادہ لوگ اسلام میں داخل ہوئے تو تابعین نے ان سے بہت کچھ لیا۔ پھر بعد میں آنے والے مفسرین کا تعلق اسرائیلیات کے ساتھ کافی زیادہ ہوگیا۔ ابنِ خلدون کہتے ہیں : ’’جب انہیں ان چیزوں کی معرفت کا شوق پیدا ہوا جس کا شوق انسانی دل کو ہوتا ہے، مثلاً کائنات کی تخلیق، مخلوق کی ابتداء اور کائنات کے اسرار کا علم تو انہوں نے ان اشیاء کے بارے اہلِ کتاب سے سوال کرنا شروع کردیے، ان سے استفادہ کرتے یہ لوگ توراۃ والے یہودی اور پھر ان کے متبعین نصاریٰ تھے، چناں چہ تفاسیر ان سے منقول روایات سے بھر گئیں ۔ (انظر التفسیر والمفسرون: ۱۷۷/۱) مفسرین اہلِ کتاب سے لی گئی ان اسرائیلیات کی صحیح اسناد کو تلاش نہیں کرتے تھے، ان میں سے کچھ باتیں فاسد وباطل ہیں ۔ اس لیے ان کی کتب پڑھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ بے فائدہ روایات سے بچے اور اسی چیز کو نقل کرے جو انتہائی ضروری ہو اور اس کی نقل کی صحت کو