کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 468
کریں اور وہی تفسیر بہتر ہوتی ہے۔ جس میں دلائل مضبوط ہوں اور وہ تفسیر ساری دنیا کو چھوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو، عمومی لحاظ سے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نقل کیا گیا ہو اور یہ نقل ثقہ راویوں سے ہو اور بطور برہان سب سے زیادہ بہتر تاویل وہی ہوگی جس کا علم لغوی لحاظ سے حاصل کیا گیاہو۔ یعنی ان کی مروجہ زبان سے اشعاری شواہد ملتے ہوں یا ان کی معروف لغات کے شواہد ہوں ۔ تفسیر کرنے والا کوئی بھی ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تفسیر اقوال صحابہ وتابعین اور ائمہ دین کے اقوال سے خالی نہ ہو۔ (تفسیر طبری: ۹۳/۱)
اسرائیلی روایات
یہودیوں نے اپنی دینی ثقافت توراۃ جب کہ عیسائیوں نے انجیل سے لی ہے۔ ظہور اسلام کے بعد بہت سے یہودونصاریٰ پرچم اسلام کے سائے تلے آگئے لیکن دونوں قومیں اپنی دینی ثقافت کو نہ بھول سکیں ۔ قرآن کریم بھی بہت سی ان باتوں پر مشتمل ہے جو تورات وانجیل میں تھیں ، خصوصاً انبیاء کے واقعات اور سابقہ امتوں سے متعلقہ خبریں وغیرہ لیکن قرآن کریم میں ان باتوں کو اجمالاً بیان کیا گیا ہے جس کا مقصد عبرت وموعظت ہے۔ اس میں تاریخی واقعات کی جزئیات، شہروں اور شخصیات کے نام تفصیل سے بیان نہیں ہوئے جب کہ تورات وانجیل میں جزئیات کی تفاصیل اور شرح بیان ہوئی ہے۔
جب اہلِ کتاب اسلام میں داخل ہوئے تو وہ اپنے قصص واخبار سے اپنی ثقافت بھی لے کر آئے۔ یہ لوگ جب قرآنی واقعات کو پڑھنے لگے تو انہوں نے اپنی کتابوں میں مذکور تفاصیل کو بھی پڑھنا شروع کر دیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ان تفاصیل کو سن کر توقف فرماتے تھے کیوں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سن رکھا تھا:
((لَا تُصَدِّ قُوْا اَہْلِ الْکِتَابِ وَلَا تُکَذِّبُوْھُمْ وَقُوْلُوْا آمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَا اُنْزِلَ اِلَیْنَا۔)) (اخرجہ البخاری)
’’تم اہلِ کتاب کو سچا یا جھوٹا نہ کہو بلکہ یہ کہو کہ ہم اللہ تعالیٰ اور جو چیز ہماری طرف نازل ہوئی ایمان لائے۔‘‘
بسا اوقات ان جزئیات کے بارے صحابہ اور اہلِ کتاب کے مابین گفتگو ہو جایا کرتی تھی