کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 467
ابنِ جریر طبری فرماتے ہیں :
یہ واقعات ہماری اس بات کے گواہ ہیں کہ قرآن کی ان آیات کی تاویل جن کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صریح نص یا دلالۃ النص کے بغیر ممکن نہیں ، اس میں کسی شخص کے لیے اپنی رائے کے ساتھ کچھ کہنا جائز نہیں ہے بلکہ رائے کے ساتھ کہنے والے کی رائے اگرچہ درست بھی ہو پھر بھی وہ رائے کے ساتھ کہنے کی وجہ سے خطاکار ہے۔ اس کی درستگی کو حق سمجھ کر اس پر یقین نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ وہ ایک اندازے کے ساتھ کہی گئی تھی اور اللہ کے دین میں اپنے خیال کے مطابق بات کرنے والا اللہ پر وہ کچھ کہہ رہا ہوتا ہے جس کا اسے علم نہیں ہے۔ اس چیز کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے، فرمایا:
﴿قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَالْبَغْیَ بَغَیْرِ الْحَقَّ وَ اَنْ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ.﴾ (الاعراف: ۳۳)
(تفسیر ابن جریر طبری، ۷۸،۷۹/۱)
چناں چہ یہ اور ائمہ اسلاف سے مروی ان جیسے دیگر اقوال سے پتا چلتا ہے کہ وہ بغیر علم قرآن میں بات کرنے کو گناہ سمجھتے تھے لیکن جو شخص اس بارے لغوی یا شرعی لحاظ سے علم رکھتا ہے، اسے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی لیے ان لوگوں سے تفسیری اقوال مروی ہیں ۔ لہٰذا اس میں کوئی تضاد نہیں ہے کیوں کہ انہوں نے اسی بارے بات کی ہے، جس کا انہیں علم تھا اور جس بارے وہ نہیں جانتے تھے وہاں خاموشی اختیار کی ہے اور ہر انسان پر ایسا کرنا ہی واجب ہے۔ ہاں جہاں صحیح تفسیر بالماثور موجود ہو پھر اسے چھوڑ کر رائے کی تفسیر اپنائے تو یہ معاملہ بہت بھیانک ہے۔
شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ فرماتے ہیں :
خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص صحابہ وتابعین کی تفسیر چھوڑ کر ان کے مخالف تفسیر کرتا ہے وہ گناہگار بلکہ بدعتی ہے کیوں کہ صحابہ وتابعین قرآن کی تفسیر اور معانی کو ویسے ہی بہتر جانتے تھے جس طرح وہ اس حق کے بارے بہتر علم رکھتے تھے جو اللہ نے اپنے رسول کو عطا کیا تھا۔
طبری فرماتے ہیں :
قرآن کی تاویل میں حق بیان کرنے والا بہترین مفسر ہے، جس کی تاویل کو لوگ اختیار