کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 466
نہیں ملتی۔ ان لوگوں نے اپنے مذہب کے اصولوں کے مطابق ہی تفسیر لکھی جیسے عبدالرحمن بن کیسان الاصم، جبائی، عبدالجبار، رمانی اور زمخشری وغیرہ کی تفاسیر ہیں ۔ ان میں سے کچھ لوگوں کی تفاسیر حسن عبارت کا مرقع ہوتی ہے اور وہ اپنے مذہب کو لوگوں میں رائج خوبصورت کلام کے ساتھ پیش کرتے ہیں ، جیسا کہ صاحب کشاف (زمخشری ) نے اپنے اعتزالی عقائد کے لیے کیا ہے جب کہ کچھ مفسرین اپنے عقائد میں زیادہ متشدد نہیں ہیں ، ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے مذہب کے مطابق اللہ تعالیٰ کی صفات کی تاویل کی۔ یہ لوگ معتزلہ کی نسبت اہلِ سنت کے زیادہ قریب ہیں لیکن جب وہ ایسی چیز بیان کریں جو صحابہ وتابعین کے مذہب کے مخالف ہو تو اس وقت یہ لوگ معتزلہ اور دیگر بدعتی لوگوں کے ساتھ مل جاتے ہیں ۔ تفسیر بالرائے کا حکم: بغیر کسی دلیل صرف عقل واجتہاد کی بناء پر قرآن کی تفسیر کرنا حرام ہے اور اس کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ﴾ (الاسرا: ۳۶) نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے اپنی رائے یا بغیر علم قرآن میں کوئی بات کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔‘‘ (اخرجہ الترمذی والنسائی وابوداؤد وقال الترمذی ھذا حدیث حسن) ایک روایت میں ہے: ’’جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کچھ کہا وہ صحیح بھی ہو تب بھی اس نے غلطی کی۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین اس تفسیر کو گناہ سمجھتے تھے، جس بارے ان کے پاس علم نہیں ہوتا تھا۔ چناں چہ یحییٰ بن سعید کہتے ہیں ’’جب سعید بن مسیب سے قرآن کی کسی آیت کی تفسیر پوچھی جاتی تو وہ فرماتے: ہم قرآن کے بارے کچھ نہیں کہہ سکتے۔‘‘ ابوعبید القاسم نے روایت ذکر کی ہے کہ ’’ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے آیت: ﴿وَفَاکِہَۃً وَّاَبًّا.﴾ (عبس: ۳۱) میں مذکور ’’اَبّ‘‘ کے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: ’’اگر میں قرآن کے بارے جو علم نہیں رکھتا کوئی بات کروں تو کون سا آسمان مجھے سایہ کرے گا اور کون سی زمین اٹھائے گی؟‘‘