کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 465
جن میں حادثات کے رونما ہونے اور آنے والے اوقات کے بارے خبریں ہیں ، مثلاً: قیامت کا قائم ہونا، صور کا پھونکا جانا اور عیسیٰ بن مریم کا نزول وغیرہ، جیسے اللہ فرماتے ہیں :
﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرْسٰہَا قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّیْ لَا یُجَلِّیْہَا لِوَقْتِہَآ اِلَّا ہُوَ ط ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَا تَاْتِیْکُمْ اِلَّا بَغْتَۃً یَسْئَلُوْنَکَ کَاَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْہَا قُلْ اِنَّمَا عَلْمُہَا عِنْدَ اللّٰہِ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ.﴾ (الاعراف: ۱۸۷)
کچھ آیات ایسی بھی ہیں جن کا علم قرآن کی زبان (عربی) کو جاننے والے کو ہی ہوتا ہے، اس میں اعراب کی درستگی، اشیا کے ناموں کی حقیقت کا علم تاکہ اس میں دوسرا معنی شریک نہ ہو اور اسی طرح موضوعات کو ان کی خاص صفات سے پہچاننا وغیرہ ہے، تو ان تمام چیزوں سے کوئی بھی عربی بولنے والا ناواقف نہیں ہوتا مثلاً اگر کوئی عربی شخص کسی تلاوت کرنے والے سے یہ سنے۔
﴿وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ.اَلَآ اِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لَکِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ.﴾ (البقرۃ: ۱۱ ۔ ۱۲)
تو اس پر یہ بات مخفی نہیں رہتی کہ یہاں فساد سے مراد وہ چیز ہے جو نقصان دہ ہے اور اسے چھوڑنا ضروری ہے اور اصلاح سے مراد وہ کام ہیں جن کا کرنا فائدہ مند ہوتا ہے، اگرچہ وہ ان معانی سے نابلد ہی کیوں نہ ہو، جنہیں اللہ تعالیٰ نے فساد قرار دیا ہے یا وہ معانی جنہیں اللہ نے اصلاح کہا ہے۔
تفسیر بالرائے
وہ تفسیر جس میں مفسر معنی کو وضاحت کے لیے صرف اپنی خاص سمجھ اور رائے پر اعتماد کرتے ہوئے مسائل کا استنباط کرے اور فہم بھی ایسا ہو جو روح شریعت سے متفق ہو اور نہ ہی اس کا تعلق نصوص سے ہو۔
رائے سے مراد ایسی رائے ہے جو کتاب اللہ میں انتشار کی دعوت دیتی ہو۔ اس انداز پر تفسیر کرنے والے اکثر لوگ اہلِ بدعت ہی تھے، جنہوں نے اپنے باطل مذاہب پر اعتقاد رکھتے ہوئے اپنی رائے پر ہی قرآن کی تاویل کی اور ان کی آراء اور تفسیر کی سلف صالحین سے کوئی شہادت