کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 464
۳۔ وہ تفسیر جسے علما جانتے ہیں ۔
۴۔ وہ تفسیر جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
(1) وہ تفسیر جسے عرب جانتے ہیں ایسی تفسیر ہے جو ان کی لغت کو واضح کرنے والی ہو۔
(2) وہ تفسیر جسے عدم واقفیت کی بناء پر عذر نہیں سمجھا جاتا ہے، ایسی تفسیر ہے جس کا مفہوم شرعی احکام اور توحید کے دلائل پر مبنی نصوص سے فوراً ذہن میں آجاتا ہے۔
چناں چہ ہر آدمی اللہ تعالیٰ کے فرمان:
﴿فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِِلٰہَ اِِلَّا اللّٰہُ﴾ (محمد: ۱۹)
سے توحید کا مطلب سمجھ لیتا ہے۔ خواہ اسے یہ علم نہ ہو کہ یہ آیت نفی اور استثناء کے ذریعے لائی گئی ہے اور اس میں کسی چیز کو محدود کیا گیا ہے۔
(3) جس چیز کی تفسیر اللہ کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا وہ غیبی امور ہیں جیسے قیامت قائم ہونے اور روح کی حقیقت وغیرہ۔
(4) جس تفسیر کو علما جانتے ہیں وہ علماء کا اجتہاد ہوتا ہے، جو دلائل وشواہد کی بناء کیا جاتا ہے نہ کہ صرف ان کی رائے پر، جیسے مجمل کی وضاحت اور عام کو خاص کرنا وغیرہ۔
ابنِ جریر طبری ایسی ہی بات ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں :
اللہ تعالیٰ کے فرمان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر جو قرآن نازل کیا ہے۔ اس میں سے کچھ چیزیں ایسی بھی جن کا علم نبی علیہ السلام کی وضاحت سے ہی ممکن ہے، جیسے اوامر کے انداز، واجبات ومندوبات میں اللہ تعالیٰ کے ارشادات، اقسامِ نہی، حقوق اللہ اور حدود کی ذمہ داری، فرائض کا مقصد، اس کی مخلوق میں باہمی مشترک قدریں اور ان جیسے دیگر احکام جن کا امت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کے بغیر علم نہیں ہو سکتا۔ یہ تفسیر کی وہ قسم ہے جس میں کسی کو ازخود بات کرنے کی جرأت نہیں کرنا چاہیے اور کسی شخص کو بات کرنے کا حق اس وقت ہے جب اس کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نص کا علم ہو یا آپ نے اس بارے کوئی رہنمائی فرمائی ہو۔
قرآن کی کچھ آیات کی تفسیر کا علم صرف اللہ واحد وقہار کے پاس ہی ہے اور یہ وہ آیات ہیں