کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 463
دوسرے کے قریب قریب ہیں ۔
اسرائیلیات سے اجتناب
بسااوقات بے فائدہ چیزوں میں اختلاف ہوتا ہے اور ہمیں ایسی چیزوں کو جاننے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی کہ اس واقعہ کو جاننے کی کوشش کریں جسے بعض مفسرین کے بنی اسرائیلی روایات سے لیا ہوتا ہے، جیسے کہ اصحاب کہف کی تعداد، اس کے اسماء اور ان کے کتے کے رنگ کا اختلاف ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے:
﴿سَیَقُوْلُوْنَ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُہُمْ کَلْبُہُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ خَمْسَۃٌ سَادِسُہُمْ کَلْبُہُمْ رَجْمًا مبِالْغَیْبِ وَ یَقُوْلُوْنَ سَبْعَۃٌ وَّ ثَامِنُہُمْ کَلْبُہُمْ قُلْ رَّبِّیْٓ اَعْلَمُ بِعِدَّتِہِمْ مَّا یَعْلَمُہُمْ اِلَّا قَلِیْلٌ فَلَا تُمَارِفِیْہِمْ اِلَّا مِرَآئً ظَاہِرًا﴾ (الکہف: ۲۲)
اسی طرح نوح علیہ السلام کی کشتی، اس کی لکڑیوں ، اس بچے کا نام جسے خضر علیہ السلام نے قتل کیا تھا، ان پرندوں کے نام جنہیں اللہ تعالیٰ نے ابرہیم علیہ السلام کے لیے زندہ کیا تھا، موسیٰ علیہ السلام کا عصا کس لکڑی کا تھا اور اس طرح کی دیگر چیزوں میں مفسرین کا اختلاف کرنا ان امور سے ہے جن کے علم کا ذریعہ صرف نقل ہے۔ چناں چہ ان میں سے جس چیز کے بارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو جائے اسے قبول کیا جائے گا، وگرنہ ہم توقف کریں گے۔ اگرچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے منقول چیزوں سے ہمارا دل مطمئن ہی کیوں نہ ہو کیوں کہ انہوں نے اہلِ کتاب کی روایات تابعین کی نسبت کم نقل کی ہیں ۔
تفسیر بالماثور کا حکم:
تفسیر بالماثور کی اتباع اور اسے قبول کرنا ضروری ہے کیوں کہ یہ صحیح معرفت کا ذریعہ اور کتاب اللہ میں ہر قسم کی لغزش سے محفوظ رہنے کا پر امن رستہ ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’تفسیر چار طرح سے ہوتی ہے:
۱۔ جسے عرب لوگ کلام سے پہچانتے ہیں ۔
۲۔ وہ تفسیر جس سے عدم واقفیت عذر نہیں ہے۔