کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 462
اختلاف ہوتا ہے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
اسلاف میں تفسیری اختلاف بہت کم ہے اور جو ان سے اختلاف ثابت ہے وہ نوعی اختلاف ہے نہ کہ تضاد کا اور اس کی دو قسمیں ہیں ۔
۱۔ ایک مفسر سے ثابت معانی ومفہوم کے لحاظ سے مسمّٰی میں تو یکسانیت ہوتی لیکن الفاظ میں معمولی اختلاف ہوتا جیسے
﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم.﴾ (الفاتحہ: ۵)
کی تفسیر ہے، بعض نے اس کی تفسیر اتباع قرآن جب کہ بعض نے اسلام کے ساتھ کی ہے، اب دونوں اقوال متفق ہیں کیوں کہ اتباع قرآن کا نام ہی دین اسلام ہے لیکن ہر ایک لفظ الگ الگ وصف کو بیان کر رہا ہے۔
۲۔ ہر مفسر عام اسم کی بعض انواع کو بطور تمثیل اور سامع کو بعض انواع پر متنبہ کرنے کے لیے بیان کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان میں اس کی مثال موجود ہے۔
﴿ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ وَ مِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌ وَ مِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرٰتِ﴾ (الفاطر: ۳۲)
اب اس آیت کے دو مفہوم بیان کیے جاتے ہیں ایک یہ کہ: اول وقت نماز پڑھنے والے کو سابق، درمیانی وقت میں پڑھنے والے کو مقتصد اور نماز کو سورج زرد ہونے تک مؤخر کرنے والے کو اپنے اوپر ظلم کرنے والا کہا جاتا ہے۔
جب کہ دوسرا قول یہ ہے کہ سابق سے مراد زکاۃ کے ساتھ ساتھ نفلی صدقہ دینے والا، مقتصد صرف فرض زکوٰۃ دینے والا اور ظالم سے مراد زکوٰہ نہ دینے والا ہے۔ (الاتقان: ۱۷۷/۲)
بسا اوقات لفظ کے دو معانی پر احتمال کی وجہ سے اختلاف ہوتا ہے جیسے لفظ عَسْعَسَ ہے اس سے رات کا آنا بھی مراد ہے اور جانا بھی۔
یا یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ الفاظ جن سے معانی کی تعبیر کی جاتی ہے، متقارب ہوتے ہیں جیسا کہ بعض حضرت تُبسَل کی تفسیر تُحْبَس سے اور بعض نے تُرَہَّن سے کی ہے کیوں کہ یہ ایک