کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 461
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں : مفسر کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جس طرح قرآن کے الفاظ سکھائے اسی طرح آپ نے قرآن کے معانی بھی واضح کر دیے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ﴾ (النحل: ۴۴) اس سے الفاظ اور معانی دونوں مراد ہیں ۔ ابوعبدالرحمان السلمی کہتے ہیں : ہمیں ان لوگوں نے بتایا جو ہمیں قرآن پڑھایا کرتے تھے جیسے عثمان بن عفان اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما وغیرہ، کہ جب صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیات سیکھ لیتے تو آگے نہ بڑھتے یہاں تک کہ یہ جان لیتے کہ اس میں علم وعمل کی کیا کیا باتیں ہیں ۔ وہ کہتے ہیں : ہم کے علم وعمل اکٹھا سیکھا ہے۔ لہٰذا وہ ایک مدت تک ایک ہی سورت کو حفظ کیا کرتے تھے۔ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : جب کوئی شخص سورۃ البقرہ اور آلِ عمران پڑھ لیتا تو اسے ہم میں برتری حاصل ہو جاتی تھی۔ (رواہ احمد فی مسندہ) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سورۃ البقرہ کو آٹھ سال تک یاد کرتے رہے۔ اسے امام مالک نے اپنی مؤطا میں ذکر کیا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْا اٰیٰتِہٖ﴾ (صٓ: ۲۹) اور ﴿اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ﴾ (النساء: ۸۲) کی وجہ سے تھا۔ کسی بات کا تدبر اس کے معانی کوسمجھے بغیر ممکن نہیں ۔ نیز عادتاً بھی یہ محال ہے کہ لوگ طب، حساب یا کسی اور فن کی کوئی کتاب پڑھیں اور انہیں اس کی تشریح کی ضرورت پیش نہ آئے۔ کتاب اللہ کا تو مقام ہی نرالا ہے، یہ لوگوں کی عصمت کی ضامن ہے اور اس سے ہی ان کی نجات، سعادت اور دین ودنیا کی بھلائی کا حصول ممکن ہے۔ (الاتقان: ۱۷۶/۲) تفسیر بالماثور میں اختلاف: تفسیر بالماثور کا دارومدار اس امت کے ابتدائی لوگوں کی روایات پر ہے اور ان میں اختلاف کی نوعیت بعد والے لوگوں سے کم تھی بلکہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ تعبیر میں معمولی سا اختلاف ہوتا ہے جب کہ معنی میں اتحاد ہی ہوتا ہے۔ یا پھر تمثیلی لحاظ سے عام تفسیر میں بعض افراد کے درمیان