کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 460
کے حسن، معاشرتی پہلوؤں ، جدید افکارو نظریات، اور نئے مذاہب پر خصوصی توجہ دی گئی ہے، اس طرح ایسی تفاسیر معاشرتی آداب کا حسین شاہکار ہیں ایسی تفاسیر کرنے والوں میں محمد عبدہ، سید محمد رشید رضا، محمد مصطفی مراغی، سید قطب اور محمد عزہ دروزہ شامل ہیں ۔
۹۱۱ ہجری میں حافظ جلال الدین سیوطی نے ’’طبقات المفسرین‘‘ لکھی، جس کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ اس کتاب میں صحابہ، تابعین، تبع تابعین، مفسرین اہلِ سنت، مفسرین فرق باطلہ جیسے معتزلہ جیسے لوگوں کے احوال پر مشتمل ہوگی لیکن وہ مکمل نہیں ہوسکی اور اس میں تراجم کی تعداد ۱۳۶ تک ہی پہنچ سکی اور وہ حروف تہجی کے لحاظ سے مرتب تھی۔
اسی طرح الشیخ ابوسعید صنع اللہ الکوزہ کنانی المتوفی ۹۸۰ ہجری نے بھی طبقات المفسرین پر کتاب لکھی۔ نیز احمد بن محمد ادنہ وی نے بھی اس پر لکھا۔
حافظ شمس الدین بن محمد علی بن احمد داؤدی (متوفی ۹۴۵ھ) نے اپنی مشہور کتاب ’’طبقات المفسرین‘‘ لکھی جو کہ اسلامی کتب خانے میں اپنے موضوع کے لحاظ سے بہترین کتاب ہے۔ اس میں داؤدی نے دسویں ہجری کے شروع تک کے نامور مفسرین کے تراجم لکھے، حاجی خلیفہ کشف الظنون میں لکھتے ہیں : اس موضوع پر یہ بہترین تصنیف ہے۔
تفسیر بالماثور اور تفسیر بالرائے
;تفسیر بالماثور:
اس سے مراد وہ تفسیر ہے جس میں ان مراتب کے مطابق منقول تفسیر پر اعتماد کیا جاتا ہے جن کا ذکر مفسر کی شروط میں گزر چکا ہے۔ یعنی قرآن کی قرآن کے ساتھ، یا حدیث کے ساتھ تفسیر کیوں کہ یہ قرآن وضاحت کرنے والی ہے یا ان اقوال سے تفسیر کرنا جو صحابہ کرام سے منقول ہیں کیوں کہ وہ کتاب اللہ کو باقی لوگوں سے زیادہ جاننے والے تھے۔ اسی طرح تابعین کے اقوال سے تفسیر ہو جنہوں نے زیادہ تر علم صحابہ کرام سے لیا تھا۔ اس طریقہ میں ان آثار کو ذکر کیا جاتا ہے جو کسی آیت کی تفسیر میں وارد ہوئے ہوتے ہیں ۔ اس میں مفہوم بیان کرنے کے لیے کسی بے بنیاد چیز کا سہارا نہیں لیا جاتا۔ نیز ان امور سے بھی گریز کیا جاتا ہے جن کی معرف فائدہ مند نہ ہو یا وہ کسی صحیح سند سے منقول نہ ہوں ۔