کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 46
درست بات کو واضح کر دیتی ہے۔[1] حدیث کی یہ قسم قطعی طور پر کلامِ الٰہی نہیں ہوتی۔
اس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ حدیث نبوی اپنی دونوں اقسام ’’توقیفی اور توفیقی (اجتہادی)‘‘ جسے وحی نے برقرار رکھا ہے، کے ساتھ بالآخر وحی ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان دونوں اقسام کا منبع وحی ہی ہے۔ اس بارے میں رب العزت کا فرمان ہے:
﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی.اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی.﴾ (النجم: ۳۔۴)
’’وہ (نبی علیہ السلام ) اپنی خواہش سے بات نہیں کرتے، بلکہ ان کی باتیں تو محض وحی ہوتی ہے، جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔‘‘
٭ حدیث قدسی کا مفہوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے، جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی کسی بھی کیفیت کے ساتھ القاء کیا جاتا ہے، جب کہ اس کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس کے مضمون کی نسبت ہوتی ہے الفاظ کی نہیں ۔ اگر الفاظ کی نسبت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو پھر حدیث قدسی اور قرآن میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا اور اگر ایسا ہوتا تو اس کے اسلوب کو بھی چیلنج سمجھا جاتا اور اس کی تلاوت بھی عبادت ہوتی۔
دو شبہات اور ان کا ازالہ:
پہلا شبہ: …بلاشبہ حدیث نبوی معنی کے اعتبار سے وحی ہے اور اس کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہوتے ہیں ، تو پھر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر حدیث کو حدیث قدسی کیوں نہیں کہتے؟
جواب: حدیث قدسی کے بارے ہم قطعی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اس کا مفہوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے، اس لیے کہ اس پر ایک شرعی دلیل موجود ہوتی ہے اور وہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ‘‘ اس لیے ایسی حدیث کو ہم حدیث قدسی کہتے ہیں ،
[1] اس کی مثال یہ ہے کہ بدر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے پر عمل کرتے ہوئے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا تھا تو قرآن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا گیا: ﴿مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ﴾ (الانفال: ۶۷) (ع۔م)