کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 459
ایسے لگتا ہے کہ قرآن اس فن کے علاوہ کسی اور علم کے لیے نہیں اترا حالانکہ قرآن میں ہر چیز کا بیان موجود ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ نحوی کی تمام تر توجہ اعراب اور اس کی ممکنہ توجیہات کو بڑھانے کی طرف ہوتی ہے۔ خواہ وہ کتنے ہی نامناسب کیوں نہ ہوں ۔ نیز وہ نحو کے قواعد اور فروعی واختلافی مسائل کو ہی نقل کرتا ہے۔ جیسے ابو حبان نے ’’البحر‘‘ اور ’’النھر‘‘ میں کیا ہے۔
تاریخ دان کا مقصد قصہ کو مکمل کرنا اور گزشتہ اقوام کے بارے خبریں اکٹھی کرنا ہوتا ہے، خواہ وہ صحیح ہوں یا باطل، جیسا کہ شبلی نے کیا ہے۔ فقیہ مفسر تفسیر میں پوری فقہ سمو دینے کی کوشش کرتا ہے اور اس کام کے لیے وہ ایسے فروعی وفقہی دلائل پیش کرتا ہے جن کا حقیقت میں آیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، نیز مخالفین کے دلائل کا جواب بھی دیتا ہے۔ جیسا کہ قرطبی نے کیا ہے۔
عقلی دلائل کی مہارت رکھنے والے بالخصوص فخرالدین رازی نے اپنی تفسیر کو حکماء وفلاسفہ کے اقوال سے بھر دیا ہے، وہ اس طرح بات سے بات نکالتا ہے کہ پڑھنے والا ورطہِ حیرت میں پڑ جاتا ہے کہ آیت کی تفسیر سے کوئی مطابقت اسے نظر نہیں آتی۔ ابوحیان ’’البحر‘‘ میں لکھتے ہیں :
رازی نے اپنی تفسیر میں بہت سی لمبی لمبی ایسی باتیں لکھی ہیں ، جن کی علم تفسیر میں ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی لیے بعض علماء کہتے ہیں ۔ اس میں تفسیر کے علاوہ ہر چیز ہے۔
بدعتی مفسر کا مقصد صرف اور صرف اپنے فاسد مذہب کے لیے آیات کو سیدھا کرنا اور ان میں تحریف کرنا ہوتا ہے۔ اسے جو کچھ ملے وہ لکھ دیتا ہے اسے اپنی بدعت کے لیے کوئی ادنیٰ سا موقع بھی ملے تو اسے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ جیسے کہ بلقینی لکھتے ہیں :
میں نے ’’کشاف‘‘ سے اعتزال (معتزلہ کے عقائد ونظریات) کو چن چن کر نکالا ہے۔ جیسا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے فرمان
﴿فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ﴾ (آل عمران: ۱۸۵)
کی تفسیر میں لکھا ہے: ’’جنت میں داخلے سے بڑی کامیابی کون سی ہو سکتی ہے۔ اس میں اس کا اشارہ اللہ تعالیٰ کے دیدار کے نہ ہونے کی طرف ہے اور یہی کام ملحدین وغیرہ کا ہے۔
۹۔ جدید ترقی یافتہ دور:
اس میں بہت سے مفسرین نے نئی طرز پر تفسیر کی، اس میں اسلوب کی خوبصورتی، عبارت