کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 458
ابوالشیخ بن حیان اور ابنِ منذر رحمہم اللہ وغیرہ ہیں جن کی روایات صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی طرف منسوب ہیں ۔ ان میں صرف ابنِ جریر اقوال کی توجیہ و ترجیح اور اعراب واستنباط کو پیش کرتے ہیں ۔ اس لیے ان کی تفسیر کو فوقیت حاصل ہے۔ ۵۔ پانچواں طبقہ: یہ مفسرین کا وہ خاص طبقہ ہے جنہوں نے ایسی تصانیف کیں جن میں اعراب کی وجوہات اور قراء ت کے بارے محذوف الاسناد روایات ذکر کی ہیں ۔ نیز کسی جگہ اپنی رائے کو جگہ دی ہے، جیسے ابواسحاق زجاج، ابوعلی فارسی، ابوبکر نقاش اور ابوجعفر نحاس وغیرہ۔ ۶۔ متاخرین مفسرین: ان سے مراد متاخر مفسرین کی وہ جماعت ہے جنہوں نے اسناد کو مختصر کر دیا اور ایسے اقوال بھی درج کیے جن کی کوئی سند نہیں تھی، یہاں سے تفسیر میں دخل اندازی شروع ہوئی اور صحیح وسقیم میں فرق نہ رہا۔ ۷۔ ساتواں طبقہ: یہ وہ خود رو مفسرین تھے جنہوں نے ہر قسم کے قول کو تفسیر میں شامل کر دیا اور من پسند باتوں پر اعتماد کیا، پھر جب یہ تفسیر اس سے آگے منقول ہوئی تو بعد والوں نے یہ سمجھ لیا کہ اس کی کوئی بنیاد ہوگی۔ انہوں نے اسلاف کی باتوں کی طرف کوئی دھیان نہ دیا جو کہ اس معاملے میں ایک نمونہ تھے۔ سیوطی کہتے ہیں : میں نے ﴿غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْن.﴾ (الفاتحہ: ۷) کی تفسیر میں دس اقوال دیکھے ہیں ، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین اس سے یہودونصاریٰ کے علاوہ کوئی اور مراد نہیں لیتے تھے۔ یہاں تک کہ ابنِ ابی حاتم کہتے ہیں ۔ مفسرین کے درمیان اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے۔ ۸۔ مصنفین فن کی جماعت: اس کے بعد ایک ایسی جماعت آئی جنہوں نے اپنے اپنے فن کو تفسیر میں جگہ دی اور اپنی کتاب کو فن سے بھر دیا اور اسی چیز پر اکتفا کیا جس میں اسے مہارت حاصل تھی۔ ان کی تفسیر سے