کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 457
ہوں کہ یہ رات کے وقت اتری یا دن کو، کسی وادی میں اتری یا پہاڑ پر۔‘‘
سیدنا ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی مرویات علی رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ ہیں ، ابنِ جریر وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، قرآن کی ہر نازل ہونے والی آیت کے بارے میں خوب جانتا ہوں کہ کس کے بارے اور کہاں نازل ہوئی تھی؟ اگر مجھے کسی ایسے شخص کی جگہ کا پتہ ہو جو مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کا علم رکھتا ہو اور سواری وہاں جا سکتی ہو تو میں اس کے پاس جاؤں ۔‘‘
رہے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ تو ان کا تذکرہ ہم عنقریب کریں گے ان شاء اللہ۔
۲۔ مفسر تابعین:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
تفسیر کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے اہلِ مکہ ہیں ، کیوں کہ وہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے۔ جیسے مجاہد، عطاء بن ابی رباح، عکرمہ مولی ابن عباس، سعید بن جبیر اور طاؤس رحمہم اللہ وغیرہ۔
کوفہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد، مدینہ میں زیدبن اسلم جن سے ان کے بیٹے عبدالرحمان بن زید اور امام مالک رحمہم اللہ نے علم حاصل کیا۔ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے معروف شاگردوں میں علقمہ، اسود بن یزید، ابراہیم نخعی اور شعبی ہیں ۔ اس طبقہ میں حسن بصری، عطاء بن ابی مسلم خراسانی، محمد بن کعب قرظی، ابوالعالیہ، رفیع بن مہران ریاحی، ضحاک بن مزاحم، عطیہ بن سعد العوفی، قتادہ بن دعامہ سدوسی رحمہم اللہ ، ربیع بن انس اور سدی، یہ تابعین میں قدیم مفسرین ہیں ۔
ان کے زیادہ تر اقوال صحابہ سے منقول ہیں ۔
۳۔ تیسرا طبقہ:
یہ وہ طبقہ ہے جنہوں نے صحابہ اور تابعین کے اقوال کو جمع کر کے تفسیر کی کتابیں تصنیف کیں ۔ جیسے سفیان بن عیینہ، وکیع بن جراح، شعبہ بن حجاج، یزید بن ہارون، عبدالرزاق، آدم بن ابی ایاس، اسحاق بن راہویہ، عبد بن حمید، روح بن عبادہ اور ابوبکر بن ابی شیبہ رحمہم اللہ وغیرہ۔
۴۔ چوتھا طبقہ:
اس طبقہ میں علی بن ابی طلحہ، ابنِ جریر طبری، ابنِ ابی حاتم، ابنِ ماجہ، حاکم، ابنِ مردویہ،