کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 456
یہی وجہ تھی کہ تفسیر باالرائے تفسیر بالماثور پر غلبہ پاگئی اور تفسیر کی یہ صورت حال ایک عرصہ تک آہستہ آہستہ جاری رہی کہ ہر آنے والا مفسر سابق مفسر کی باتوں کو نقل کرتا، کبھی اسے اختصار کے ساتھ بیان کرتا اور کبھی اس پر تعلیق لگا دیتا، یہاں تک کہ تفسیر میں جدید عصری رجحانات پیدا ہوگئے۔ پھربعض مفسرین نے موجودہ وقت کی ضروریات کے مطابق تفاسیر لکھیں اور انہوں نے قرآن کریم میں معاشرتی زندگی کی بنیادوں ، قانون کے مبادیات اور علمی نظریات کو منکشف کیا جیسا کہ تفسیر الجواہر، تفسیر المنار اور فی ظلال القرآن وغیرہ ہیں ۔
موضاعاتی تفسیر:
تفسیر کے تدوینی دور میں عام تفسیر کے ساتھ ساتھ تفسیر کے خاص موضوعات کی تدوین پر بھی خاص توجہ دی گئی۔ ابن القیم کے ’’البیان فی اقسام القرآن‘‘ کے تالیف کی، ابوعبیدہ نے مجاز القرآن، راغب اصفہانی نے مفردات القرآن، ابوجعفر النحاس نے ناسخ ومنسوخ، ابوالحسن واحدی نے اسباب نزول اور جصاص نے احکام القرآن تالیف کی۔ دور حاضر میں بھی قرآنی اعجاز پر کتابیں لکھی جا رہی ہیں اور قرآن کی بعض آیات کو زیر بحث لایا جا رہا ہے۔
طبقات مفسرین
گزشتہ اوراق میں کی گئی باتوں کی بناء پر ہم مفسرین کو درج ذیل طبقات میں تقسیم کر سکتے ہیں :
۱۔ مفسرین صحابہ:
صحابہ میں معروف مفسرین خلفائے اربعہ، ابنِ مسعود، ابنِ عباس، ابی بن کعب، زید بن ثابت، ابوموسیٰ اشعری، عبداللہ بن زبیر، انس بن مالک، ابوہریرہ، جابر اور عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم ہیں ۔
خلفائے اربعہ میں سب سے زیادہ سیدنا علی بن ابی طالب سے منقول ہے جب کہ اصحابِ ثلاثہ سے کم روایات منقول ہیں ۔ اس کا سبب ان کی علی رضی اللہ عنہ سے پہلے وفات ہے۔ جیسا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بہت کم روایات آئی ہیں ۔ معمر نے بواسطہ وہب بن عبداللہ، ابوالطفیل سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں : ’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’مجھ سے سوال کر لو، تم مجھ سے جو بھی پوچھو گے میں جواب دے دوں گا، میں کتاب اللہ کی ہر آیت کے متعلق یہاں تک جانتا