کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 455
ان علماء کی تفاسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعینِ عظام اور تبع تابعین رحمہم اللہ سے اسناد کے ساتھ مروی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ بسااوقات بعض آراء واحکام میں استنباط اور اعراب کے پیش نظر کسی ایک کی ترجیح کا ذکر بھی کیا جاتا ہے، جیسا کہ ابنِ جریر طبری نے کیا ہے۔ پھر ان کے بعد مفسرین کی وہ جماعت آئی جنہوں نے تفسیر بالماثور کی حد سے تجاوزتو نہیں کیا لیکن انہوں نے اسناد کو مختصر کر کے مختلف اقوال جمع کیے اور ان اقوال کی نسبت ان کے قائلین کی طرف نہیں کی، جس کی وجہ معاملہ خلط ملط ہوگیا اور صحیح وضعیف کی تمیز نہ ہو سکی۔ اس کے بعد علوم میں مزید وسعت پیدا ہوئی، اس کی تدوین مکمل ہوئی، فروعات واختلاف زیادہ ہوا، کلام کے مسائل ابھرے، مذہبی تعصب رونما ہوا، عقلی علوم فلسفہ، علومِ نقلیہ سے مل جل گئے اور اسلامی فرقوں نے اپنے اپنے مذہب کے پرچار کے لیے تگ ودو شروع کر دی تو ان چیزوں کے اثرات تفسیر پر ظاہر ہونے لگے۔ نیز مفسرین نے تفسیر میں اپنے ذاتی فہم کو معیار بنا کر اس پر اعتماد شروع کر دیا، منہج مختلف ہوگئے اور ان میں علمی اصطلاحات، مذہبی عقائد اور فلسفیانہ ثقافت کے مطابق فیصلے ہونے لگے۔ چناں چہ ہر مفسر نے اپنی تفسیر کو دیگر علوم سے بھرنا شروع کر دیا۔ عقلی علوم کے حامل مفسرین نے اپنی تفاسیر کو حکماء وفلاسفہ کے اقوال سے بھرنا شروع کر دیا جیسے فخرالدین رازی نے کیا۔ فقہ والوں نے فقہی اور فروعی مسائل سے اپنی تفاسیر کو بھرا جیسے جصاص اور قرطبی ہیں ، مورخ نے اپنی تفسیر کو تاریخی واقعات اور خبروں سے بھر دیا جیسے ثعلی اور خازن، بدعتی نے کلام اللہ کی تاویل اپنے فاسد مذہب کے مطابق کرنا شروع کر دی جیسے رمانی اور جبائی نے کیا، اسی طرح معتزلہ سے قاضی عبدالجبار اور زمخشری اور اثنا عشریہ امامیہ سے ملا محسن الکاش تھے نیز تصوف کا عقیدہ رکھنے والوں نے اشاری معانی کا استخراج کیا جیسا کہ ابنِ عربی تھا۔ نحووصرف اور بلاغت کے علوم رکھنے والوں نے بھی یہی سلوک کیا جس کے نتیجہ میں کتبِ تفسیر میں بہت سی باتیں جمع ہوگئیں جن میں کچھ قیمتی ہیں ، کچھ فضول اسی طرح کچھ فائدہ مند ہیں اور کچھ بے فائدہ۔ ہر مفسر نے آیاتِ قرآنیہ کو اپنے مذہب کے دفاع میں ایسے معانی پر محمول کیا جن معانی کی وہ متحمل نہیں تھیں ۔ اس طرح انہوں نے اپنے مخالفین پر رد کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تفسیر کا بنیادی مقصد ہدایت ورہنمائی اور احکامِ دینیہ کی معرفت ختم ہو کر رہ گیا۔