کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 454
اس دور میں علم تفسیر سیکھنے، سکھانے اور روایت کے ذریعہ سے محفوظ تھا، پھر تابعین نے اسلام قبول کرنے والے اہلِ کتاب سے اسرائیلی روایات کثرت سے نقل کیں ، مثلاً عبداللہ بن سلام، کعب احبار، وہب بن منبہ اور عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج کی مرویات، ان کی مرویات میں تفسیری اقوال میں بہت اختلاف ہے لیکن یہ اقوال ایک دوسرے کے قریب یا مترادف ہیں ۔ چناں چہ یہ صرف عبارت (الفاظ) کا اختلاف ہے تضاد کا اختلاف نہیں ۔ تفسیر تدوینی ادوار میں تدوین بنو امیہ کے دور کے آخر اور عباسی خاندان کے دور کے اوائل میں شروع ہوئی۔ اس میں حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی، حدیث کی تدوین مختلف ابواب پر مشتمل تھی اور تفسیر اسی کا ایک باب تھی۔ چناں چہ قرآن کی ایک ایک سورت اور آیت کی ابتداء سے اختتام تک تفسیر کی مخصوص تالیف نہیں تھی۔ ایک جماعت نے اس تفسیر کی روایت کی طرف توجہ دی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ رضی اللہ عنہ یا تابعین رحمہم اللہ کی طرف منسوب تھی، اس کے ساتھ ساتھ وہ حدیث کو جمع کرنے پر بھی توجہ دیتے رہے۔ اس جماعت کے ہر اول دستے میں یزید بن ہارون سلمی (متوفی ۱۱۷ ہجری) شعبہ بن حجاج (متوفی ۱۶۰ ہجری) وکیع بن جراح (متوفی ۱۹۷ ہجری) سفیان بن عیینہ (متوفی ۱۹۸ ہجری) روح بن عبادہ (متوفی ۲۰۵ ہجری) عبدالرزاق بن ہمام (متوفی ۲۱۱ ہجری) آدم بن ابی ایاس (متوفی ۲۲۰ ہجری) اور عبد بن حمید (متوفی ۲۴۹ ہجری) شامل تھے۔ ان کی تفاسیر ہم تک نہیں پہنچیں بلکہ تفسیر بالماثور کی کتب میں ان کی طرف منسوب باتیں متقول ہیں ۔ ان کے بعد ایسے لوگ آئے جنہوں نے تفسیر کو علیحدہ سے تالیف کیا اور اسے حدیث سے الگ ایک علم کی حیثیت دی اور مصحف کی ترتیب سے قرآن کی تفسیر کی، یہ کام کرنے والوں میں ابنِ ماجہ (متوفی ۲۷۳ ہجری) ابنِ جریر طبری (متوفی ۳۱۰ ہجری) ابوبکر بن منذر نیشاپوری (متوفی ۳۱۸ ہجری) ابنِ ابی حاتم (متوفی ۳۲۷ ہجری) ابوالشیخ بن حیان (متوفی ۳۶۹ ہجری) حاکم (متوفی ۴۰۵ ہجری) اور ابوبکر بن مردویہ (متوفی ۴۱۰ ہجری) نمایاں ہیں ۔