کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 453
سے تفسیر میں بہت کچھ منقول ہے۔ ان سے بالواسطہ یا بالمشافہ علم حاصل کرنے والے تابعین میں زیدبن اسلم، ابوالعالیہ اور محمد بن کعب القرظی معروف ہیں ۔
عراق میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا مدرسہ وجود میں آیا جسے علماء اہلِ رائے کے مدرسہ کی بنیادی اینٹ قرار دیتے ہیں ۔ اہلِ عراق میں بہت سے تابعین تفسیر میں معروف ہوئے، جن میں علقمہ بن قیس، مسروق، اسود بن یزید، مُرہ ہمدانی، عامر شعبی، حسن بصری اور قتادہ بن دعامہ نمایاں ہیں ۔
یہ اسلامی شہروں کے وہ مشہور تابعین مفسرین ہیں جن سے تبع تابعین نے علم حاصل کیا اور ہمارے لیے ایک گراں قدر علمی ورثہ چھوڑ کر گئے۔
تفسیر میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے کوئی چیز مروی نہ ہو تو آثارِ تابعین کو قبول کرنے کے بارے میں اہلِ علم کا اختلاف ہے کہ ان کے اقوال کو لیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟
ایک جماعت کا موقف ہے کہ ان کی تفسیر کو نہیں لیا جا سکتا کیوں کہ انہوں نے نزولِ قرآن کے حالات وواقعات کا مشاہدہ نہیں کیا اس لیے مراد کو سمجھنے میں ان سے غلطی کا احتمال ہے۔
جب کہ جمہور مفسرین کا موقف ہے کہ ان کی تفسیر کو لیا جاسکتا ہے کیوں کہ غالب گمان یہی ہے کہ انہوں نے یہ تفسیر صحابہ کرام سے لی ہوگی۔
اور راجح بات یہی ہے کہ جب تابعین ایک رائے پر اتفاق کرلیں تو ہمارے اوپر واجب ہے کہ اس بات کو لے لیں اور کسی دوسری طرف نہ جائیں ۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
شعبہ بن حجاج اور دیگر لوگوں کا کہنا ہے کہ تابعین کے اقوال حجت نہیں ہیں تو تفسیر میں انہیں حجت کیسے مانا جا سکتا ہے۔ یعنی ان کے اقوال ان کے مخالفین کے لیے حجت نہیں بن سکتے۔ ہاں جب کسی بات پر ان کا اجماع ہو جائے تو ان کی بات حجت ہوگی لیکن اگر ان کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہو تو پھر کسی ایک تابعی کا قول دوسرے کے لیے حجت ہو گا اور نہ ہی بعد میں آنے والوں کے لیے قابلِ قبول ہوگا۔ لہٰذا ایسی صورت میں قرآن وسنت کی لغت، عربوں کی عام زبان یا اقوال صحابہ کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ (مقدمہ ابن تیمیہ فی اصول التفسیر، ص: ۲۸۔۲۹)