کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 452
تھا یا کچھ وہ چیزیں تھیں جو انہوں نے اہلِ کتاب سے لیں یا پھر کتاب اللہ میں ان کے اجتہاد اور غوروفکر کی بدولت اللہ تعالیٰ نے ان پر انکشاف کے دروازے کھولے تھے۔ کتبِ تفاسیر میں ان تابعین عظام کے ایسے بہت سے تفسیری اقوال مروی ہیں جو رائے اور اجتہاد پر مبنی ہیں اور یہ وہاں ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے کچھ مروی نہیں تھا۔ گزشتہ اوراق میں ہم یہ ذکر کر چکے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے تفسیر کے سلسلے میں جو کچھ منقول ہے وہ قرآن کی تمام آیات کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ انہوں نے صرف وہی تفسیر کی جو ان کے ہم عصر لوگوں کے لیے سمجھنا مشکل تھا۔ پھر آہستہ آہستہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہدِ صحابہ سے دوری بڑھتی گئی تو اس امر کی ضرورت پیش آئی کہ تابعین میں کچھ لوگ اس کمی کو پورا کریں ، چناں چہ انہوں نے تفسیر اس قدر اضافہ کیا جتنی ضرورت تھی۔ پھر بعد میں آنے والے لوگوں نے انہی کی نہج پر چلے ہوئے تفسیر قرآن کو مکمل کیا، ان کا اعتماد عربی زبان اور عربوں کی گفتگو کے سلیقہ پر تھا، نیز انہوں نے ان واقعات پر بھی اعتماد کیا جو نزول قرآن کے دور میں پیش آئے اور ان تک صحیح اسناد کے ساتھ پہنچے تھے اسی طرح انہوں نے سمجھ بوجھ اور تحقیق کے وسائل پر بھی اعتماد کیا۔ اسلامی فتوحات کا سلسلہ وسیع ہوا تو بہت سے صحابہ کرام مفتوحہ شہروں میں جا کر آباد ہو گئے، ہر صحابی کے پاس علم تھا، چناں چہ ان کے شاگردوں نے ان سے علم حاصل کیا اور بہت سے مدارس معرض وجود میں آگئے۔ جن کی مختصر تفصیل حسبِ ذیل ہے۔ مکہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا مدرسہ وجود میں آیا اور مکہ میں ان کے مشہور تلامذہ یہ ہیں : سعید بن جبیر، مجاہد، عکرمہ مولیٰ ابن عباس، طاؤس بن کیسان یمانی اور عطاء بن ابی رباح رحمہم اللہ ۔ ان تمام کا تعلق غلاموں سے تھا اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے میں قلت وکثرت کے اعتبار سے ان میں فرق تھا۔ اسی طرح اہلِ علم کے درمیان ان کی ثقہ روایات اور ان کی طرف رحجان کے بارے بھی اختلاف ہے۔ ان میں سب سے زیادہ اہمیت عکرمہ کو حاصل ہے لیکن علماء ان کے علم وفضل کے قائل ہونے کے باوجود ان کی توثیق میں مختلف آراء رکھتے ہیں ۔ مدینہ میں دوسرے لوگوں کی نسبت سیدنا ابی بن کعب کو تفسیر میں شہرت حاصل ہوئی۔ ان