کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 451
یہ بات آپ کے علم میں ہونی چاہیے کہ قرآن کی دو قسمیں ہیں : ایک وہ جس کی تفسیر منقول ہے، دوسری وہ جس بارے تفسیر منقول نہیں ہے۔ پہلی قسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین یا کبار تابعین رحمہم اللہ کے تفسیری اقوال پائے جاتے ہیں ۔ سب سے پہلی قسم کو تو سند کے لحاظ سے پرکھا جائے گا اور دوسرے نمبر پر صحابی کی تفسیر ہے اگر صحابہ کی تفسیر لغت کے اعتبار سے ہو تو اس پر اعتماد کرنے میں کوئی شک نہیں کیوں کہ وہ اہل زبان تھے اور انہوں نے نزولِ وحی کے قرائن واسباب کا مشاہدہ کیا تھا، اس لیے اس میں کوئی شک نہیں ۔ (الاتقان: ۱۸۳/۲) حافظ ابنِ کثیر اپنی تفسیر کے مقدمہ میں رقم طرازہیں : اگر ہمیں قرآن وسنت سے تفسیر نہ ملے تو ہم اقوالِ صحابہ کی طرف رجوع کریں گے کیوں کہ وہ اس بارے بہتر جانتے تھے اس لیے کہ انہوں نے اس دور کے ساتھ مخصوص حالات وواقعات کا مشاہدہ کیا تھا۔ نیز ان کے پاس کامل فہم، صحیح علم اور نیک عمل موجود تھا۔ اور خاص طور پر ان میں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین اور دیگر ائمہ اور عبداللہ مسعود رضی اللہ عنہ شامل ہیں ۔ (ابن کثیر: ۳/۱) دور صحابہ میں کوئی تفسیر مدون نہ ہوئی کیوں کہ تدوین دوسری صدی میں شروع ہوئی بلکہ اس دور میں تفسیر، حدیث کی ایک قسم تھی اور اس نے کوئی منظم شکل اختیار نہیں کی تھی بلکہ متفرق آیات کی جدا جدا تفسیر بیان کی جاتی، اس میں قرآن کی سورتوں میں ترتیب اور تسلسل نہیں تھا اور نہ ہی یہ تفسیر پورے قرآن پر مشتمل تھی۔ تفسیر عہد تابعین میں جس طرح کچھ صحابہ تفسیر میں مشہور ہوئے اسی طرح بعض تابعین نے بھی تفسیر میں شہرت حاصل کی، جنہوں نے تفسیر کے معاملہ میں ان کی شاگردی اختیار کی اور انہوں نے بھی انہی مصادر پر اعتماد کیا جو گزشتہ ادوار میں تھے نیز انہوں نے اپنے اجتہاد اور غوروفکر سے بھی کام لیا۔ استاد محمد حسین ذہبی کہتے ہیں : ان مفسرین نے کتاب اللہ کو سمجھنے کے لیے کتاب اللہ، حدیثِ رسول اور تفسیرِ صحابہ پر اعتماد کیا