کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 450
ہُدًی وَّ رَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ.﴾ (النحل: ۶۴)
قرآن کے کچھ احکام ایسے ہیں جن کی تاویل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت سے ہی ممکن ہے، جیسے اوامر ونواہی کی تفاصیل اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض شدہ احکام کی مقدار وغیرہ اور یہ وہی وضاحت ہے جس کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلَا وَاِنّی اُوْتِیْتُ القُرْآنُ وَمِثْلَہُ مَعَہُ۔))
سنو! ’’مجھے قرآن اور اس کے ساتھ اسی جیسی ایک اور چیز دی گئی ہے۔‘‘
۳۔ فہم واجتہاد:
صحابہ کرام کو اگر قرآن وسنت سے تفسیر نہ ملتی تو وہ اپنے فہم سے اجتہاد کرتے تھے کیوں کہ وہ خالص عرب تھے، عربی زبان کو جانتے تھے، اس کا اچھا فہم رکھتے تھے اور اس کی بلاغت کے اسباب کو بھی جانتے تھے۔
صحابہ کرام کی ایک بہت بڑی جماعت قرآن کی تفسیر کے حوالے سے مشہور ہوئی، جن میں خلفائے اربعہ، ابنِ مسعود، ابنِ عباس، اُبی بن کعب، زید بن ثابت، ابوموسیٰ اشعری، عبداللہ بن زبیر، انس بن مالک، عبداللہ بن عمر، جابر بن عبداللہ، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم نمایاں ہیں ۔ ان سب میں قلت وکثرت کے لحاظ سے تفاوت پایا جاتا تھا۔ نیز تفسیر بالماثور کے بارے ان حضرات اور دیگر صحابہ کی طرف کچھ اور روایات بھی منسوب ہیں جن میں سند کی صحت وضعف کے بارے تفاوت ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام سے منقول تفسیر بہت قیمتی ہے اور جمہور علماء کا موقف ہے کہ کسی صحابی کی وہ تفسیر جس میں شانِ نزول بیان کیا گیا ہو اور اس میں رائے کا دخل نہ ہو تو وہ مرفوع حدیث کے حکم میں ہے لیکن جس میں صحابی کا اپنا خیال بیان ہوا ہو جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ کرے وہ موقوف ہوگی۔ جو تفسیر صحابی پر موقوف ہو بعض اہلِ علم اسے تسلیم کرنا واجب کہتے ہیں کیوں کہ وہ اہل زبان تھے اور انہوں نے ان قرائن اور احوال کا مشاہدہ کیا تھا جو نزولِ وحی کے ساتھ خاص تھے نیز ان کے پاس صحیح فہم میں تھا۔
علامہ زرکشی ’’البرہان‘‘ میں کہتے ہیں :