کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 448
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی قرآن کو سمجھتے تھے کیوں کہ قرآن ان کی زبان میں نازل ہوا تھا، لیکن اس کے باوجود اس کی باریکیوں کو نہیں سمجھتے تھے۔ ابنِ خلدون اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں : ’’قرآن عربی زبان میں نازل ہوا اور ان کی بلاغت کے اسلوب کے مطابق تھا، وہ سب (صحابہ) اسے سمجھتے اور اس کے مفردات کے معانی اور تراکیب کو جانتے تھے لیکن اس کے باوجود ایک دوسرے کے فہم میں فرق تھا۔ بعض صحابہ کچھ مفاہیم کا ادراک کر لیتے جو دوسرں سے نہ ہو پاتا۔ ابوعبیدہ نے ’’الفصائل‘‘ میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے منبر پر آیت (وَفَاکِھَۃً واباً) کی تلاوت کرنے کے بعد کہا: فاکھہ تو ہم جانتے ہیں یہ اَبّ کیا ہے؟ پھر اپنے آپ سے کہنے لگے: عمر! یہ سراسر تکلف ہے۔ (الاتقان: ۱۱۳/۲) اسی طرح ابوعبیدہ نے مجاہد نے طریق سے روایت کی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نہیں جانتا تھا کہ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کا کیا مطلب ہے۔ یہاں تک کہ دو اعرابی ایک کنویں کا مقدمہ لے کر میرے پاس آئے، ان میں سے ایک نے کہا: اَنَا فطرتُھا یعنی ’’اس کی ابتدا میں نے کی تھی۔‘‘ (الاتقان: ۱۱۳/۲) اسی لیے امام ابن قتیبہ کہتے ہیں : عرب کے لوگ قرآن کے تمام غرائب اور متشابہ کو یکساں طور پر نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان میں لوگوں کو ایک دوسرے پر فوقیت حاصل تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی تفسیر کرنے میں موجودہ دور کے درج ذیل اصولوں پرہی کاربند تھے۔ ۱۔ قرآن کریم: قرآن میں ایک چیز کسی جگہ مجمل ہے تو کسی دوسری جگہ مفصل، آیت ایک دفعہ مطلق اور عام نازل ہوتی ہے، پھر کچھ آیات نازل ہو کر اسے مقید اور مخصوص کر دیتی ہیں ۔ اسے تفسیر القرآن بالقرآن کا نام دیا جاتا ہے اور قرآن میں اس کی بہت سی مثالیں ہیں ، مثلاً قرآنی واقعات بعض جگہ مختصر ہیں تو دوسری جگہ مفصل بیان ہوئے ہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اُحِلَّتْ لَکُمْ بَہِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ﴾ (المائدہ: ۱)