کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 447
کے بارے کہا جاتا ہے کہ حبشی زبان میں نَشَأ اس وقت بولا جاتا ہے جب آدمی رات کے وقت اٹھے۔ ٭ ﴿یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ﴾ (سبا: ۱۰) میں اوّبی کا حبشی زبان میں معنی سَبِّحِی (تم تسبیح کرو) بنتا ہے۔ ٭ ﴿فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَۃٍ.﴾ (المدثر: ۵۱) ’’قَسْوَرَۃٍ‘‘ حبشی زبان میں شیر کو کہا جاتا ہے۔ ٭ ﴿حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ﴾ (ہود: ۸۲، الحجر: ۷۴) کے بارے کہا جاتا ہے کہ ’’سِجِّیْلٍ‘‘ فارسی لفظ ہے، جسے معرب بنایا گیا ہے۔ امام طبری ایسے کلمات بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں : ’’کسی نے آج تک یہ نہیں کہا کہ یہ اور اس طرح کے دیگر حروف عربوں کی کلام میں شامل نہیں تھے، بلکہ یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں حرف کا حبشی زبان میں یہ معنی بنتا ہے، فلاں کا عجمی زبان میں یہ معنی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض الفاظ کئی زبانوں میں یکساں ہوتے ہیں جیسے درہم، دینار، دوات، قلم اور کاغذ وغیرہ۔ اور ہمارے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس کی بنا پر ہم اس طرح کے الفاظ کو کسی ایک زبان کے ساتھ مخصوص کر دیں اور یہ کہہ دیں کہ اسے دوسری زبان میں منتقل کیا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص ایسا کرے گا تو اس کے پاس اپنے دعویٰ کی دلیل نہیں ہوگی۔‘‘ تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کو حفظ اور بیان کرنے کی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ضمانت دی۔ فرمایا: ﴿اِِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ. فَاِِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ. ثُمَّ اِِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ.﴾ (القیامہ: ۱۷۔۱۹) چناں چہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کو ایک ہی دفعہ تفصیل کے ساتھ سمجھ لیتے اور صحابہ کو وضاحت کے ساتھ بیان کرنا آپ کی ذمہ داری تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ.﴾ (النحل: ۴۴)