کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 446
مبحث: 25
تفسیر کا آغاز اور تدریجی ارتقاء
اللہ تعالیٰ کی سنت رہی ہے کہ اس نے ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان میں مبعوث فرمایا تاکہ وہ ان سے ہر طرح سے مخاطب ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ﴾ (ابراہیم: ۴)
اسی طرح جو کتاب بھی نازل ہوتی وہ رسول اور اس کی قوم کی زبان میں ہوتی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم چوں کہ عربی تھے اس لیے ان پر عربی زبان میں کتاب نازل ہوئی، چناں چہ قرآن کہتا ہے:
٭ ﴿اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْئٰ نًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ.﴾ (یوسف: ۲)
٭ ﴿وَاِِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ. نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ. عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ. بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ.﴾ (الشعراء: ۱۹۲۔۱۹۵)
قرآن کریم کے الفاظ عربی ہیں اور اس میں معانی کے تمام پہلو عربوں کے ہاں رائج معانی کے مطابق ہیں ۔ کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کے بارے علماء کی آراء مختلف ہیں کہ ان کا تعلق عربی لغت کے علاوہ دوسری زبان سے ہے اور انہیں عربی میں ڈھالا گیا ہے یا وہ الفاظ خالصتاً عربی ہیں لیکن دوسری زبانوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں ۔ چناں چہ یہ چیز قرآن کریم کے عربی ہونے پر اثرانداز نہیں ہوتی۔ محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ ایسے الفاظ ہیں جن میں عربی کے الفاظ دیگر اقوام کے الفاظ کے موافق ہو گئے ہیں اور اس بات کو مفسرین کے سرخیل ابنِ جریر طبری نے راجح کہا ہے اور اس پر وہ چند مثالیں پیش کرتے ہیں ، فرماتے ہیں :
٭ ﴿یُؤْتِکُمْ کِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِہٖ﴾ (الحدید: ۲۸)
کے بارے کہا جاتا ہے کہ کفلان حبشی زبان میں دوگنا پر بولا جاتا ہے۔
٭ ﴿اِِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ﴾ (المزمل: ۶)