کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 445
۵۔ نرمی اور انکساری: علمی گھمنڈ عالم اور اس کے علم سے نفع لینے میں ایک مضبوط رکاوٹ ہوتا ہے۔ اس لیے مفسر کو نرمی اور انکساری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ۶۔ عزت نفس کا خیال رکھے: مفسر کے لیے ضروری ہے کہ وہ گھٹیاپن اور کم ظرفی کا مظاہرہ نہ کرے اور نہ ہی بھکاریوں کی طرح اقتدار کی چوکھٹ پر گداگر بن کر بیٹھے۔ ۷۔ حق کا برملا اظہار کرنے والا ہو: کیوں کہ ظالم حکمران کے سامنے حق کی بات کہنا بہترین جہاد ہے۔ ۸۔ اچھی عادات رکھنے والا ہو: مفسر کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی عمومی حالتوں یعنی نشست وبرخاست اور چال چلن میں تکلف سے کام نہ لے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا وہ لوگوں میں باوقار اور بارعب بن جائے گا۔ ۹۔ تحمل مزاج اور باسلیقہ گفتگو کرنے والا ہو: جلدی جلدی باتیں نہ کرے، بلکہ ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرے تاکہ اچھی طرح سمجھی جاسکے۔ ۱۰۔ اپنے سے بہتر کو اپنے آگے کرے: بڑے علماء کی موجودگی یا ان کی زندگی میں مفسر بننے کی کوشش نہ کرے اور ان کی وفات کے بعد ان کی حقوق تلفی نہ کرے بلکہ ان کی کتابیں پڑھنے اور ان سے علم حاصل کرنے کی ترغیب دے۔ ۱۱۔ مواد کی تیاری اور پیش کرنے میں مہارت رکھتا ہو: وہ اس طرح کہ سب سے پہلے شانِ نزول بیان کرے پھر مفردات کے معانی، تراکیب کی شرح اور بلاغت واعراب کی وجوہات بیان کرے، جن پر معانی کا انحصار ہوتا ہے۔ اس کے بعد عام معنی اور اس کا حالات حاضرہ کے ساتھ باہمی ربط بیان کرے، پھر استنباط واحکامات کا ذکر کرے۔ آیات کا باہمی ربط آیات کے درمیان، شروع یا آخر میں کسی بھی مناسب موقع پر کیا جائے۔ سوالات 1۔ مفسر کے لیے کن کن شرائط کا ہونا ضروری ہے؟ 2۔ مفسر کو کن خوبیوں کا حامل ہونا چاہیے، تفصیل سے بیان کریں ۔