کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 444
بارے میں حق سے تجاوز کر کے کتاب اللہ کی آیات کی تاویل نہ کرتا رہے۔ نیز علمِ اصول بالخصوص اصولِ تفسیر سے واقفیت بھی ضروری ہے اور اس سے متعلقہ چیزوں مثلاً اسبابِ نزول اور ناسخ منسوخ وغیرہ کا بھی علم ہو، تاکہ معنی ومراد صحیح طرح سے بیان کیا جا سکے۔ ۹۔ پختہ فہم ہو: یہ وہ چیز ہے جس کی بدولت مفسر میں ایک معنی کو دوسرے پر ترجیح دینے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، یا کم ازکم شرعی نصوص کے مطابق استنباط کر سکتا ہے۔ مفسر کی خوبیاں مفسر کو درج ذیل خوبیوں کا حامل ہونا چاہیے: ۱۔ نیت اچھی اور مقصد صحیح ہو: اعمال کا دارومداد نیتوں پر ہے۔ اس لیے علوم شرعیہ میں مگن ہونے والے کا ہدف تمام انسانیت کو نفع دینا اور اسلام کی خاطر بھلائی کو رائج کرنا ہو، اسے چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو دنیاوی لالچ سے بچائے تاکہ اللہ تعالیٰ اس کی لغزشوں کی اصلاح فرماتا رہے اور خالص نیت سے حاصل ہونے والا عمل ہی نافع ہوتا ہے۔ ۲۔ اخلاق اچھا ہو: مفسر قرآن کا با اخلاق وبا ادب ہونا ضروری ہے۔ اور آداب کی تکمیل تبھی ممکن ہے جب مؤدب انسان لوگوں کے لیے ایک مثال بن جائے، اس لیے کہ ناپسندیدہ کلمات بعض اوقات حصول فوائد سے محروم کر دیتے اور غورفکر میں رکاوٹ بن جاتے ہیں ۔ ۳۔ باعمل ہو: دقیق مباحث اور علمی رفعتوں کی بجائے علماء کا عمل زیادہ مقبول ہوتا ہے۔ چناں چہ اچھی سیرت کی بدولت مفسر دینی مسائل میں ایک نمونہ بن جاتا ہے؛ کیوں کہ بدعمل عالم اگرچہ علمی مرتبہ میں اپنا ثانی نہ رکھتا ہو لیکن لوگ اس سے علم حاصل کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ ۴۔ سچائی کا متلاشی اور نقل میں ضابط ہو: مفسر کو چاہیے کہ وہی بات کہے یا لکھے جو صحیح ثابت ہو، تاکہ تصحیف اور لحن سے محفوظ رہا جا سکے۔