کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 443
۶۔ اقوالِ تابعین سے تفسیر: قرآن کی تفسیر اگر قرآن وسنت اور اقوالِ صحابہ سے بھی نہ ملے تو تابعین اور اقوالِ ائمہ کی طرف رجوع کرے۔ مثلاً مجاہدبن جبر، سعید بن جبیر، عکرمہ مولیٰ ابن عباس، عطاء بن ابی رباح، حسن بصری، مسروق بن اجدع، سعید بن مسیب، ربیع بن انس، قتادہ، ضحاک بن مزاحم اور دیگر تابعین عظام رحمہم اللہ ۔ کچھ تابعین ایسے ہیں جنہوں نے مکمل تفسیر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے حاصل کی تھی۔ بعض اوقات یہ حضرات استنباط اور استدلال کے طور پر بھی بات کہہ دیتے ہیں ان تمام چیزوں میں صحیح نقل ہی قابلِ اعتماد چیز ہے۔ اسی لیے امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں : تین چیزوں کی کوئی اصل نہیں ہے۔ ۱۔ مغازی، ۲۔ ملاحم، ۳۔ تفسیر۔ اس سے مراد وہ تفسیر ہے جس کے نقل میں صحیح روایات پر اعتماد نہ کیا گیا ہو۔ ۷۔ عربی زبان اور اس کی فروعات کا علم رکھتا ہو: قرآن کریم چوں کہ عربی زبان میں نازل ہوا ہے، لہٰذا اسے سمجھنے کے لیے عربی زبان کے مفردات کی شرح اور مفہوم کو وضعی لحاظ سے سمجھنا ضروری ہے۔ امام مجاہد فرماتے ہیں : جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اگر وہ عربی لغات کا علم نہیں رکھتا تو اس کے لیے کتاب اللہ کے بارے کلام کرنا جائز نہیں ہے۔ چوں کہ اعراب کے اختلاف کی وجہ سے معنی میں تبدیلی آجاتی ہے اس سے علم نحو سے واقفیت بھی ضروری ہے اور کسی بھی کلمہ کا مادہ معلوم کرنے کے لیے علم الصرف کا آنا بھی ضروری ہے کیوں کہ مبہم کلمہ کے معانی مصادر اور مشتقات سے معلوم ہوتے ہیں ۔ اسی طرح معانی سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے کلام کے ترکیبی خواص کا علم ہونا بھی ضروری ہے کیوں کہ اسی سے پتا چلتا ہے کہ اس کی کلام کی دلالت واضح ہے یا خفی، اس میں کس قدر حسن پایا جاتا ہے اور ان باتوں کا تعلق بلاغت کے علوم معانی، بیان اور بدیع سے ہے۔ ۸۔ قرآن کے متعلقہ اصول کا علم ہو: جیسے علم القراء ات ہے، اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ قرآن کے الفاظ کو ادا کرنے کی کیفیت کا پتا چلتا ہے۔ دوسرا اس سے بعض معانی کو بعض پر ترجیح دینے کے اسباب کی واضح ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح توحید کا علم ہونا بھی ضروری ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے