کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 442
تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ کسی جگہ ایک چیز مختصر ہے تو دوسری جگہ مفصل بیان ہوئی ہے، اس لیے سب سے پہلے قرآن کی تفسیر قرآن سے ہی کی جائے۔
۴۔ تفسیر سنتِ رسول سے تلاش کی جائے:
قرآن کریم کے بعد سنتِ رسول سے تفسیر تلاش کی جائے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث قرآن کی شرح اور وضاحت کرنے والی ہے، قرآن کریم نے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے صادر ہونے والے احکام حقیقت میں اللہ کی طرف سے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰکَ اللّٰہُ﴾ (النساء: ۱۰۵)
نیز اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ سنت کتاب اللہ کی وضاحت کرنے والی ہے۔
﴿وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ.﴾ (النحل: ۴۴)
اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلَا اِنِّی اُوْتِیْتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ۔))
’’مجھے قرآن اور اس کے ساتھ اس کی ہم مثل چیز (یعنی سنت) عطا کی گئی ہے۔‘‘
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر حکم قرآن کی فہم کا نتیجہ تھا۔‘‘
اس کی قرآن میں بہت سی مثالیں موجود ہیں ، انہیں صاحبِ اتقان (علامہ سیوطی) نے اپنی کتاب کی آخری فصل میں سورتوں کی ترتیب سے بیان کیا ہے۔ مثلاً آپ نے سبیل کی تفسیر توشے اور سواری کے ساتھ، ظلم کی تفسیر شرک اور آسان حساب کی تفسیر اعمال کی پیشگی کے ساتھ کی۔
۵۔ اقوالِ صحابہ سے تفسیر:
اگر کسی آیت کی تفسیر قرآن وسنت سے نہ ملے تو اقوالِ صحابہ کی طرف رجوع کیا جائے؛ کیوں کہ جن حالات میں قرآن نازل ہوا، انہوں نے ان حالات کا مشاہدہ کیا تھا اور قرائن سے خوب واقف تھے، نیز ان کے پاس کامل فہم، صحیح علم اور صالح عمل تھا۔