کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 44
رکھتا ہے، اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ، اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے لوگوں میں یاد کرتا ہے تو میں ان سے بہتر لوگوں میں اسے یاد کرتا ہوں ۔‘‘
قرآن کریم اور حدیث قدسی میں فرق:
قرآن کریم اور حدیث میں کئی پہلوؤں سے فرق ہے، جن میں سے چند امور کا تذکرہ کیا جا رہا ہے:
1۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ کلام ہے جس کے الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کیے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کے ساتھ عرب کو چیلنج کیا کہ وہ اس جیسا قرآن، دس سورتیں یا کم از کم ایک ہی سورت ہی بنا لائیں ۔ یہ چیلنج آج بھی موجود ہے اور اس کا اعجاز قیامت تک باقی رہے گا۔
جب کہ حدیث قدسی میں اس جیسا چیلنج اور اعجاز نہیں ہے۔
2۔ قرآن کریم کو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے، یعنی یہی کہا جائے گا: قال اللّٰہ تعالیٰ۔
جب کہ حدیث قدسی کی روایت اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہوتی ہے اور اس وقت یہ نسبت انشائی ہوتی ہے۔ چناں چہ کہا جاتا ہے: قال اللّٰہ اویقول اللّٰہ تعالیٰ۔
اور کبھی اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوتی ہے اور یہ نسبت اخباری ہوتی ہے، لہٰذا اس میں کہا جاتا ہے قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰہ عليه وسلم فیما یرویہ عن ربہ عزوجل۔
3۔ قرآن کریم مکمل طور پر تواتر سے منقول اور قطعی الثبوت ہے، جب کہ احادیث قدسیہ زیادہ تر اخبارِ احاد پر مشتمل ہیں جو کہ ظنی الثبوت ہیں ۔ نیز حدیث قدسی کبھی صحیح ہوتی ہے کبھی حسن اور کبھی ضعیف۔
4۔ قرآن کریم لفظی اور معنوی دونوں اعتبار سے اللہ کی طرف سے وحی ہے۔
جب کہ حدیث قدسی کا مفہوم اللہ کی طرف سے اور الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہوتے ہیں ۔ یعنی یہ معنوی لحاظ سے وحی ہوتی ہے نہ کہ لفظی اعتبار سے، اسی لیے جمہور محدثین کے