کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 439
کا مطلب ہے: ’’جس دن اس کا انجام ظاہر کیا جائے گا۔‘‘ اور جب ((اٰلَ الامْرُ اِلٰی کَذَا)) بولا جائے تو مطلب ہوتا ہے۔ ’’معاملہ یہ بن گیا۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ذٰلِکَ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْہِ صَبْرًا.﴾ (الکہف: ۸۲) اس کی اصل مآل ہے جس کا معنی ہوتا ہے ’’انجام‘‘ جب یوں کہا جائے: ((قَدْ اَوَّلْتُہُ فَآلَ)) تو مطلب ہوتا ہے: میں نے اسے پھیرا تو وہ پھر گیا۔ گویا تاویل کا مطلب ہے آیت کو اس کے ان معانی کی طرف پھیرنا جن کا احتمال پایا جاتا ہے اور اسے باب تفعیل کے ساتھ ذکر کرنے کا مقصد کثرت اور مبالغہ کا اظہار ہے۔ تفسیر اور تاویل میں فرق: تفسیر اور تاویل میں فرق کے بارے علماء کا اختلاف ہے۔ گزشتہ کلام کی روشنی میں ہم تفسیر وتاویل کے معنی کے بارے اہم آراء کا خلاصہ پیش کرتے ہیں: ۱۔ جب ہم تاویل کا معنی کلام اور اس کے معنی کی وضاحت کریں تو تاویل اور تفسیر ایک دوسرے کے متقارب یا مترادف ہوں گے، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابنِ عباس کے لیے دعا کی تھی: ((اَللّٰھُمَّ فَقّھْہُ فِی الدّین وَعَلِّمُہُ التأویل۔)) ۲۔ اگر ہم یہ کہیں کہ کلام کی مراد کو تاویل کہا جاتا ہے جیسے طلب کی تاویل، فعلِ مطلوب اور خبر کی تاویل، مخبربہ ہوتی ہے۔ تو اس لحاظ سے تفسیر اور تاویل میں بہت بڑا فرق ہوگا۔ کیوں کہ تفسیر کلام کی شرح ہوتی ہے اور اسے سمجھنے سے ہی اس کا وجود ذہن میں آئے گا، نیز زبان پر ایسی عبارت ہوگی جس سے اس چیز پر دلالت ہوتی ہے۔ جب کہ تاویل سے مراد وہ امور ہوتے ہیں جو خارج میں پائے جاتے ہیں چناں چہ جب طَلَعَتِ الشَّمْسُ کہا جائے تو اس کی تاویل اس کا طلوع ہونا ہی ہوگی اور یہ چیز قرآن میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰہُ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ. بَلْ کَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعَلْمِہٖ وَ لَمَّا