کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 438
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی یہ تاویل ہے۔
تاویل کرنے والوں کا اس آیت کے مطلب میں اختلاف ہے۔ چناں چہ اس سے تفسیر مراد ہوتی ہے نیز اسلاف بھی اس کا یہی معنی کرتے ہیں ۔
متاخرین کے نزدیک تاویل کی تعریف:
کسی دلیل کی بناء پر راجح مراد کو مرجوح معنی کی طرف پھیر دینا۔ سلف کے مطابق قرآن کے بارے لفظ تاویل کا یہ معنی متفقہ نہیں ہے۔کچھ علما تفسیر اور تاویل کے معنی میں فرق کرتے ہیں ، کیوں کہ لغوی لحاظ سے ان دونوں میں فرق ہے اگرچہ ان کے معانی قریب قریب ہیں ۔ یہ بات زرکشی نے نقل کی ہے۔ ابنِ فارسی کہتے ہیں :
عبارت کے معانی کو تین طریقوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
۱۔ معنی ۲۔ تفسیر ۳۔ تاویل
اگرچہ یہ تینوں مختلف چیزیں ہیں لیکن ان کے مقاصد قریب قریب ہیں ۔
اب ان کی تینوں کی وضاحت ملاحظہ فرمائیں ۔
۱- معني: اسے مقصد ومراد کہا جاتا ہے۔ اگر ((عَنَیتُ بِھٰذا الکلَامِ کَذَا)) کہا جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے: ’’میرے کہنے کا یہ مطلب ومقصد تھا۔‘‘ یہ اظہار سے مشتق ہے۔ جب مشکیزہ میں پانی محفوظ نہ رہے بلکہ باہر نکل آئے تو کہا جاتا ہے: ((عَنَت القِربَۃُ)) اس بحث میں یہی مطلب مراد ہے۔
۲- تفسیر: لغوی اعتبار سے اظہار اور کھولنے کو تفسیر کہا جاتا ہے۔ ابن الانباری کہتے ہیں :
عرب لوگ جانور کو جب کسی محدود جگہ میں دوڑائیں تو کہتے ہیں : ((فَسَرتُ الدَابَّۃَ وَفَسَّرْتُھا)) اسے بھی کشف ہی کہا جاتا ہے۔ چناں چہ تفسیر کا مطلب ہے: بند لفظ کی مراد کو کھولنا اور اسے سمجھنے میں آڑے آنے والی رکاوٹ کو ہٹانا۔
۳- تاویل: لغوی لحاظ سے اس کا اصل ’’أول ہے۔ جب کہا جائے ((مَا تَا وِیل ھٰذا الکَلامِ))؟ تو اس کا مطلب ہوتا ہے: اس کا انجام کیا ہے؟
جیسے اللہ تعالیٰ کے فرمان:
﴿یَوْمَ یَاْتِیْ تَاْوِیْلُہٗ﴾ (الاعراف: ۵۳)