کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 437
کی طرف لوٹی ہے، اس کی دو قسمیں ہیں ۔
۱۔ تاویلِ امر (یا انساء) ۲۔ تاویلِ اخبار
۱۔ تاویل امر:
اس سے مراد وہ فعل ہے جس کا حکم دیا گیا ہو جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدہ میں یہ دعا کیا کرتے تھے:
((سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ۔))
آپ قرآن یعنی اللہ تعالیٰ کے فرمان
﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ اِِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا.﴾ (النصر: ۳)
کی تاویل کرتے تھے۔ (متفق علیہ)
۲۔ تاویل اخبار:
اس سے مراد ہے اس چیز کا وقوع پذیر ہونا جس کی خبر دی گئی تھی۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِیْلَہٗ یَوْمَ یَاْتِیْ تَاْوِیْلُہٗ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ نَسُوْہُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَآئَ تْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَہَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَآئَ فَیَشْفَعُوْا لَنَآ اَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ﴾ (الاعراف: ۵۳)
اللہ تعالیٰ نے انہیں بتا دیا کہ یہ فیصلہ کن کتاب ہے اور یہ بھی بتایا کہ یہ لوگ اس کی تاویل کا انتظار کر رہے ہیں یعنی قرآن نے قیامت، اس کی نشانیوں ، آخرت میں نامہ اعمال، ترازو اور جنت وجہنم کے بارے جو کچھ بتایا ان کے وقوع پذیر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ۔
چناں چہ اس وقت یہ لوگ کہیں گے:
﴿قَدْ جَآئَ تْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَہَلْ لَّنَا مِنْ شُفَعَآئَ فَیَشْفَعُوْا لَنَآ اَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ﴾ (الاعراف: ۵۳)
۲۔ کلام کی تاویل:
یعنی کلام کی تفسیر اور اس کے معنی کی وضاحت۔ امام ابنِ طبری نے اپنی درجِ ذیل عبارت میں اسی چیز کو مراد لیا ہے، وہ کہتے ہیں :