کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 436
اس کے بعد وہ تعریف کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں :
علم سے ہر قسم کا علم مراد ہے، قرآن کے الفاظ کو ادا کرنے کے طریقے سے مراد علم القراء ت ہے، مدلولات سے مراد ان الفاظ کے مدلولات ہیں اور یہ لغت کا علم ہے جو اس (تفسیر کے) علم کے لیے ضروری ہے۔ اس کے انفرادی اور ترکیبی احکام کا مطلب ہے کہ یہ علم صرفی، اعرابی، علمِ بیان اور علمِ بدیع پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان کے ترکیبی حالات سے مراد ہے کہ یہ علم الفاظ کی حقیقی اور مجازی معنی کو بھی واضح کرتا ہے کیوں کہ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ جملہ کی ظاہری حالت کسی ایک چیز کو واضح کرتی ہے لیکن ظاہری مفہوم مراد لینے سے کوئی رکاوٹ موجود ہوتی ہے تو اسے غیر ظاہری یعنی مجازی معنی پر محمول کیا جاتا ہے اور الفاظ سے متعلقہ تتمہ جات کا مطلب ہے: ناسخ ومنسوخ، اسبابِ نزول اور قرآن کے بعض مبہم قصائص کی پہچان کروانا۔
زرکشی کہتے ہیں :
تفسیر سے مراد وہ علم ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ کتاب کی سمجھ، اس کے معانی کی وضاحت اور اس کے احکام کا استنباط ہو سکے۔‘‘ (الاتقان: ۱۷۴/۲)
تأویل کا لغوی معنی:
تأویل اَوْل سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہوتا ہے: اصل کی طرف لوٹنا: اٰل اِلَیْہ اَوْلاً وَماٰ لاً کا معنی ہے وہ لوٹا۔
اور جب کسی کام کی تدبیر وتقدیر کو بیان کرنا مقصود ہو تو کہا جاتا ہے:
((اَوَّلَ الکلامَ تأویلاً وَ تَأَوَّلَہُ۔))
تاویل کا اصطلاحی معنی:
لغوی معنی کا اعتبار کرتے ہوئے اصطلاحی طور پر تاویل کے دو معنی بنتے ہیں :
1۔ کلام کی تاویل کی تاویل
2۔ کلام کی تاویل
۱۔ کلام کی تاویل کی تاویل:
اس کا مطلب ہے: متکلم نے جو کلام لوٹائی اس کی تاویل اور کلام اپنی حقیقت اور معنی مقصود