کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 435
یعنی بیان اور تفصیل۔ ان دونوں فعلوں میں زیادہ تر مزید فیہ کا استعمال ہوتا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی اَحْسَنَ تفسیرا کا معنی تفصیل ہی کیا ہے۔
بعض کہتے ہیں یہ سَفَر سے مقلوب ہے، اس کا معنی بھی کھولنا ہی ہے، جب کوئی عورت چہرے سے نقاب ہٹا دے تو عرب کہتے ہیں :
((سَفَرَتِ المَرْأَۃُ سُفُوْرًا۔)) اور ایسی عورت کو سافرہ کہا جاتا ہے۔ اور اَسْفَر الصُّبْحُ کا معنی ہوتا ہے: صبح روشن ہوگئی۔
باب تفعیل میں اسے ذکر کرنے کا مقصد کثرت کو ظاہر کرنا ہے۔ جیسے
﴿یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآئَ کْمْ﴾ (البقرہ: ۴۹)
وہ تمہارے بچوں کا خوب قتل کرتے تھے۔ اسی طرح
﴿وَ غَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ﴾ (یوسف: ۲۳)
اور اس (عزیز کی بیوی) نے اچھی طرح سے دروازے بند کر دیے۔
گویا تفسیر میں بھی یہی کیفیت ہوتی ہے کہ ایک سورت کے بعد دوسری سورت اور ایک آیت کے بعد دوسری آیت۔
علامہ راغب اصفہانی کہتے ہیں :
فسر اور سفر جس طرح الفاظ میں قریب قریب ہیں ، اسی طرح ان کے معانی بھی متقارب ہیں ۔ لیکن فرق یہ ہے کہ فَسْر سے مراد ہے معقول معنی کو ظاہر کرنا، جب کہ سَفْر کا معنی ہے: کسی مادی چیز کو لوگوں کی نظروں کے سامنے لانا۔ جیسے کہا جاتا ہے: ((سَفَرَتِ المَرْأَۃُ عَنْ وَجْھِھَا۔)) اور ((اَسْفَرَا لصُّبْحُ۔))
تفسیر کا اصطلاحی معنی:
ابوحیان نے تفسیر کی یہ تعریف کی ہے:
’’تفسیر ایسے علم کو کہا جاتا ہے جس میں قرآن مجید کے الفاظ کو ادا کرنے کا طریقہ، الفاظ کے مدلولات، ان کے انفرادی وترکیبی احکام، ان کے ترکیبی حالات اور ان سے متعلقہ تتمہ جات کے بارے بحث ہوتی ہے۔‘‘