کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 434
مبحث: 23
تفسیر اور تأویل
قرآن کریم امتِ محمدیہ کے لیے اولین قانونی وتشریعی مصدر ہے۔ اس کے مطالب کی پہچان، اسرار کی معرفت اور اس پر عمل کرنے میں ہی امت کی سعادت ہے۔ اگرچہ اسلام کی باتیں بہت واضح اور آیات بڑی مفصل ہیں لیکن اس کے باوجود سب لوگ اس کے الفاظ وعبارات کو یکساں طور پر نہیں سمجھ پاتے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کے فہم وادراک کا ملکہ مختلف ہوتا ہے، ایک عام سا انسان ظاہری معانی کو سمجھ کر اس کے مختصر مفہوم سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے، جب کہ ایک ذہین وفطین طالب علم اس سے بہت سے معانی ومفاہیم کا استنباط کرتا ہے۔ اسی طرح ان دونوں کے درمیان میں بھی کچھ افراد ہوتے ہیں ۔ اس لیے اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ اس امت کے لوگوں نے قرآن کے غریب الفاظ کی تفسیر وترکیب سمجھانے کے لیے قرآن کو خاص اہمیت دی ہے۔
تفسیر اور تأویل کا مفہوم
تفسیر کا لغوی معنی:
لغوی لحاظ سے تفسیر ’’ف، س، ر‘‘ سے باب تفصیل کا مصدر ہے۔ جس کا معنی ہوتا ہے: واضح کرنا، کھولنا اور معقول معنی کا ظاہر کرنا۔
اس کا فعل ضَرَبَ اور نَصَرَ کے وزن پر ہوتا ہے۔ فَسَرَ الشَیئَ یَفْسِر اور یَفْسُر فَسْراً کا معنی ہے: ڈھکی ہوئی چیز کو کھولا اور ظاہر کیا۔
لسان العرب میں ہے: اَلْفَسْرُ: کَشْفُ الشیء: کسی ڈھکی ہوئی چیز کو کھولنا۔ لہٰذا تَفْسیر کا معنی ہوا: مشکل لفظ کی مراد کو کھولنا۔‘‘ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَلَا یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِِلَّا جِئْنَاکَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا.﴾ (الفرقان: ۳۳)