کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 432
زبانوں میں ڈھالنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگوں نے اسی لیے عربی زبان سیکھنا شروع کی ہو کہ انہوں نے قرآن کو کسی دوسری زبان میں منتقل نہیں کیا تھا کیوں کہ عربوں کو ایک جاہ و حشمت اور شان وشوکت حاصل تھی اس لیے غیر عرب ان کی زبان کو قبول کرتے یہاں تک کہ عجمی ممالک بھی عربی بولنے لگ گئے۔ (بلاغۃ القرآن، ص: ۱۸)
آج کے دور کے حالات کے تناظر میں عربی اقوام کو چاہیے کہ وہ دوسری زبانیں سیکھیں تاکہ دوسری حکومتوں کی یونیورسٹیز میں علمی وفود کو بھیجا جا سکے یا ان کی یونیورسٹیوں میں غیر عرب مولفین کی لکھی ہوئی کتب کی تعلیم حاصل کی جاسکے اور ان حالات میں یہ علمی وثقافتی ضرورت ہے۔ آج ہمارے مشاہدے میں یہ بات بھی آرہی ہے کہ علم وثقافت کو بہت سے لوگوں کی عقل وفکر پر غلبہ حاصل ہے اور ان کی زندگیوں کے رخ کا تعین بھی یہی ثقافت کرتی ہے، اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ علم وثقافت ان کے دماغ میں رچ بس چکی ہے اس لیے وہ ان فنون میں خوب مہارت حاصل کر رہے ہیں ۔ لوگوں کے اخلاق وعادات اور رسوم ورواج میں ثقافت کا بڑا عمل دخل ہے، یہی وجہ ہے کہ ہماری زندگی مختلف شعبوں میں اسلامی طرز عمل سے ہٹ رہی ہے۔
جہاں تک دوسری اقوام کا تعلق ہے تو انہیں اپنا علم یا کتب عربی زبان میں ڈھالنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ سائنسی اعتبار سے انہیں ایک غلبہ حاصل ہو چکا ہے۔ اگر اسلامی حکومت علم وثقافت، سیاست، اخلاق، طاقت اور رعب ودبدبہ میں اپنا گزشتہ تشخص برقرار رکھتی تو ساری دنیا کی نظریں ان کی طرف ہوتیں اور وہ بھی اسلامی فکر کے سرچشمہ سے سیراب ہونے، اپنی علم پیاس بجھانے، اس کے زیر سایہ زندگی بسر کرنے اور اپنی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے عربی زبان سیکھتے اور جس طرح آج ہمیں ان کی زبانیں سیکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے، اسی طرح انہیں ہماری زبان سیکھنے کی ضرورت پڑتی۔
قرآن کے ترجمہ پر گفتگو کرتے ہوئے یہی محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی سلطنت کمزوری کا شکار ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ہم اپنی تمام فکری کوششوں کو قرآنی حکومت قائم کرنے کے لیے صرف کریں ، جس کا ارتقاء علم ومعرفت کی بنیادوں پر ہو۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے مختلف قسم کے لوگوں کی زبانوں کو عربی میں ڈھالا جا سکتا ہے۔