کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 431
بول سکتا ہو۔ امتِ مسلمہ کی قوت ہی وہ چیز ہے جس سے اسلام کو غلبہ اور قرآن کی زبان کو برتری مل سکتی ہے۔ ہم اس بحث کا اختتام اسی بات پر کرتے ہیں کہ قرآن کا لفظی ترجمہ کرنا ممکن ہے اور نہ ہی جائز اور اس کے اصل معانی کا ترجمہ اگرچہ واضح معانی والی آیات میں ممکن ہے لیکن پھر بھی وہاں خرابی کا اندیشہ ہے۔ اسی طرح قرآن کے ثانوی معانی کا ترجمہ بھی ناممکن ہے کیوں کہ قرآنی بلاغت کے اسباب کو کسی بھی دوسری زبان میں ادا نہیں کیا جا سکتا۔ اب یہی رہ جاتا ہے کہ قرآن کی تفسیر کی جائے اور تبلیغِ دین کے لیے اس کی تفسیر کا ترجمہ کیا جائے۔ علمائے شافعیہ میں سے نامور عالم ’’قفال‘‘ کہتے ہیں : میرے مطابق کوئی شخص قرآن کو فارسی میں ڈھالنے پر قدرت نہیں رکھتا۔ ان سے کسی نے کہا: پھر تو قرآن کی تفسیر بھی کوئی نہیں کر سکتا۔ تو انہوں نے جواب دیا: ایسا نہیں ہے کیوں کہ یہاں ممکن ہے کہ تفسیر کرنے والا اللہ تعالیٰ کے بعض مقاصد کو بیان کر دے اور بعض سے عاجز رہے لیکن جب وہ فارسی میں قرآن پڑھے گا تو اللہ کے تمام مقاصد کی بجا آوری ممکن نہیں ۔ تفسیری ترجمہ بھی غیر مسلم اقوام کو دعوتِ اسلام دینے کے لیے ضروری حد تک ہونا چاہیے۔ حافظ ابنِ حجر فرماتے ہیں : جو شخص اسلام میں داخل ہو چکا ہو یا داخل ہونے کا ارادہ کرے تو اسے قرآن سنایا جائے، اگر وہ اسے نہیں سمجھ پاتا تو اس کے احکام کی معرفت کے لیے اس کا ترجمہ کیا جا سکتا ہے تاکہ اس پر حجت قائم ہو جائے اور وہ اسلام میں داخل ہو جائے۔ (فتح الباری، باب یجوزمن تفسیر التوراۃ وکتب اللّٰه بالعربیۃ) گزشتہ ادوار میں مسلمان برتری حاصل کرنے کے لیے ہر دشوار گزار رستے پر چل پڑتے اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے ہر خطرہ مول لے لیا کرتے تھے۔ نیز انہوں نے بہادری، عدل اور اخلاقِ عالیہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا جس کی وجہ سے مخالفین کی آنکھیں دنگ رہ جاتی تھیں انہوں نے جہاں بھی اپنے جھنڈے گاڑے عربی زبان وہاں پہنچ گئی اور جہاں جہاں ان کے قدم پڑتے گئے عربی زبان پھیلتی گئی۔ انہیں اسلام کی دعوت پھیلانے میں قرآن کے معانی کو اجنبی