کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 430
’’جمہور کے نزدیک قرآن کو عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں تلاوت نہیں کیا جا سکتا خواہ پڑھنے والا عربی زبان پر دسترس رکھتا یا نہ پڑھ سکتا ہو۔ یہی بات صحیح ہے اس میں کوئی شک نہیں ۔ بلکہ کچھ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ کسی سورت یا ان آیات کا جن سے اعجاز قائم ہے، ترجمہ کرنا بھی درست نہیں ۔‘‘
آخری بات جس کی طرف انہوں نے اشارہ کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے جس حصے سے اعجاز ہوتا ہے اس کا ترجمہ کرنا درست نہیں ہے۔
دین اپنے پیروکاروں کے لیے عربی زبان کی تعلیم حاصل کرنا لازم قرار دیتا ہے کیوں کہ یہ قرآن کی زبان اور اسے سمجھنے کی کنجی ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ’’الاقتضاء‘‘ میں لکھتے ہیں :
عربی زبان دین کا حصہ ہے، اسے سمجھنا واجب ہے، اس لیے کہ قرآن وسنت کو سمجھنا واجب ہے اور ان کا فہم عربی زبان کے فہم سے ہی ممکن ہے اور جس کے بغیر کسی واجب کو پورا کرنا ممکن نہ ہو تو وہ بھی واجب ہو جاتا ہے۔‘‘
رہا احناف کا قرآن کے ترجمہ کے ساتھ نماز میں قراء ت کرنے والا معاملہ تو جائز قرار دینے والے یہی کہتے ہیں کہ یہ رخصت اس وقت ہے جب کوئی عربی میں قراء ت کرنے پر قادر نہ ہو اور ان کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ ترجمہ کو قرآن نہیں کہا جا سکتا، نیز یہ صرف نماز میں ہی جائز ہے۔ جس طرح احناف کے علاوہ دیگر لوگ ذکر الٰہی میں اسے جائز سمجھتے ہیں نماز کے ذکر میں بھی اختلاف ہے۔ وہ ذکر تکبیر تحریمہ کی طرح واجب ہو یا غیر واجب۔ واجب اذکار کو ترجمہ کے ساتھ ادا کرنے کی ممانعت کے قائل امام مالک، اسحاق اور احمد رحمہم اللہ ہیں ۔ جب کہ ابویوسف، محمد اور امام شافعی رحمہم اللہ نے اسے مباح قرار دیا ہے۔ باقی اذکار کے بارے امام مالک، اسحاق اور امام شافعی شاگردوں کا یہ موقف ہے کہ ان کا ترجمہ نہ کیا جائے اور جب کوئی شخص نماز کو (عربی میں نہیں بلکہ) ترجمہ کے ساتھ ادا کرتا ہے تو اس کی نماز باطل ہوگی۔ امام شافعی نے اس کی قراء ت نص سے ثابت کی ہے۔ امام احمد کے شاگردوں کا بھی یہی موقف ہے کہ ایسا تب ہے جب وہ اچھی طرح عربی نہ