کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 429
قرآن کے ترجمہ کو فارسی میں تبدیل کر کے قراء ت کرنا جائز ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَلَوْ جَعَلْنٰہُ قُرْاٰنًا اَعْجَمِیًّا لَّقَالُوْا لَوْلَا فُصِّلَتْ اٰیٰتُہٗ ئَ اَعْجَمِیٌّ وَّعَرَبِیٌّ قُلْ ہُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہُدًی وَّشِفَآئٌ وَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ فِیْ آذَانِہِمْ وَقْرٌ وَّہُوَ عَلَیْہِمْ عَمًی اُوْلٰٓئِکَ یُنَادَوْنَ مِنْ مَّکَانٍ بَعِیْد.﴾ (فصلت: ۴۴)
اس آیہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن سے عجمی زبان کی نفی کر دی ہے۔ اس لیے اسے ایسی زبان میں کیسے پڑھا جا سکتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے خود نفی فرمائی ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں :
قرآن کا اعجاز وتبیان عربی زبان میں ہی ہو سکتا ہے، اگر اسے کسی اور زبان میں لے جائیں تو قرآن ہو گا، نہ بیان اور نہ ہی اعجاز کا تقاضا باقی رہے گا۔
حافظ ابنِ حجر جو شوافع کے فقہا میں سے ہیں ، فتح الباری میں لکھتے ہیں :
اگر پڑھنے والا عربی زبان میں پڑھنے کی طاقت رکھتا ہے تو وہ کسی اور زبان میں نہیں پڑھ سکتا کیوں کہ کسی اور زبان میں قراء ت کرنے سے نماز صحیح نہیں ہوگی، خواہ وہ عربی زبان پڑھنے سے قاصر ہی کیوں نہ ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ جو شخص عربی زبان پڑھنے سے عاجز ہے، شارع علیہ السلام نے اسے قراء ت کی بجائے ذکر کرنے کی تعلیم دی ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جو حنابلہ کے معروف فقیہ اور بذات خود مجتہد ہیں ، کہتے ہیں :
کسی دوسری زبان میں ایسا لفظ ملنا ناممکن ہے جو قرآن کا مفہوم و معنی ادا کر سکے۔ اس لیے ائمہ دین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں قراء ت جائز نہیں ہے۔ اسے عربی آتی ہو یا نہ آتی ہو کیوں کہ اس طرح وہ قرآن باقی نہیں رہتا جو آسمان سے نازل ہوا۔
(بلاغۃ القرآن، ص: ۱۵)
اسی طرح ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ میں نماز کے اذکار میں فقہاء کا اختلاف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں غیر عربی زبان میں کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ وہ اس بارے لکھتے ہیں :