کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 428
۱۔ مطلق طور پر جائز ہے یا عربی نہ بول سکنے کی صورت میں جائز ہے۔
۲۔ ایسا کرنا بالکل منع ہے اور اس طرح سے پڑھی گئی نماز صحیح نہیں ہوگی۔
پہلا مذہب احناف نے اختیار کیا ہے۔ ابوحنیفہ سے مروی ہے کہ وہ فارسی میں نماز پڑھنے کے جواز کے قائل ہیں ۔ اسی بنا پر ان کے شاگرد ترکی، ہندی اور دیگر زبانوں میں نماز پڑھنے کو جائز کہتے ہیں ۔ شاید ان لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ قرآن کچھ معانی کا نام ہے جن پر عربی زبان کے الفاظ دلالت کرتے ہیں اور معانی زبان اور الفاظ کے مختلف ہونے کی وجہ سے بدلتے نہیں ہیں ۔
لیکن صاحبین (ابو یوسف اور محمد بن حسن) نے اس میں یہ قید لگائی ہے کہ ایسا اس وقت جائز ہے جب نماز پڑھنے والا عربی زبان میں قراء ت نہ کر سکتا ہو لیکن جو عربی میں قراء ت کر سکتا ہے اس کے لیے جائز نہیں ہے۔ ’’معراج الدرایہ‘‘ میں ہے:
ہم نے قرآن کے ترجمہ کے ساتھ قراء ت کرنے کی اجازت اس شخص کو دی ہے جو عربی زبان پڑھنے سے عاجز ہو نیز وہ غیر عربی میں قراء ت کرتے وقت معنی میں خلل نہ ڈالے کیوں کہ قرآن کے معانی کی قراء ت قرآن کی قراء ت ہی سمجھی جائے گی۔ لہٰذا ترجمہ کی قراء ت کرنا بالکل قراء ت نہ کرنے سے بہتر ہے، اس لیے کہ تکلیف بقدر طاقت ہوتی ہے۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے نماز کے مطلق طور پر غیر عربی قراء ت کے جواز سے رجوع کر لیا تھا۔
دوسرا مذہب جمہور کا ہے، چناں چہ موالک، شوافع اور حنابلہ نماز میں قرآن کے ترجمہ کی قراء ت سے منع کرتے ہیں ، نماز پڑھنے والا عربی پر دسترس رکھتا ہو یا پڑھنے سے عاجز ہو۔
کیوں کہ قرآن کا ترجمہ قرآن نہیں ہے، قرآن کریم کی ترتیب وتنظیم معجز ہے اور یہ اللہ کا کلام ہے۔ جس کے بارے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ قرآن عربی ہے۔ ترجمہ کے ساتھ قرآن کا اعجاز ختم ہو جاتا ہے، نیز ترجمہ اللہ کا کلام نہیں ہے۔
مالکیہ کے نامور فقیہ قاضی ابوبکر بن العربی، اللہ تعالیٰ کے فرمان:
﴿وَلَوْ جَعَلْنٰہُ قُرْاٰنًا اَعْجَمِیًّا لَّقَالُوْا لَوْلَا فُصِّلَتْ اٰیٰتُہٗ ئَ اَعْجَمِیٌّ وَّعَرَبِیٌّ﴾ (فصلت: ۴۴)
کی تفسیر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
ہمارے علما کا موقف ہے کہ اس آیت کی رو سے امام ابوحنیفہ کا یہ قول باطل ہو جاتا ہے کہ